لونڈیوں کے احکام
١) ہمبستری کا جواز اور اباحت
اسلام میں دو طرح کی خواتین سے ہمبستری اور جسمانی تعلق بنانے کی اجازت دی گئی۔ ایک وہ جن سے نکاح کر لیا جائے اور ایک وہ جن کے وہ مالک ہوں یعنی لونڈیاں
1) چنانچہ قرآن میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے بیان ہوا:
والذين هم لفروجهم حافظون ﴿٥﴾ إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم فإنهم غير ملومين ﴿٦﴾
"اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں۔" 
(المومنون: 4-6)
اس آیت میں واضح طور پہ دو طرح کی عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ (1) أزواجهم یعنی بیویاں (2) أو ما ملكت أيمانهم یعنی وہ عورت جو آدمی کی مِلک اور قبضہ میں ہو یعنی لونڈی۔
2) یہی حکم حدیث میں کچھ یوں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: 
"بیوی یا لونڈی کے علاوہ ہمیشہ اپنی شرمگاہ چھپائے رکھو."
(سنن ترمذی، رقم 2794 / سنن ابو داؤد، رقم 4017 / سنن ابن ماجه، رقم 1920 / السنن الکبری للبیھقی، ج1 ص306، رقم 960 /  السنن الكبرى للنسائي، ج8 ص187، رقم 8923)
3) قرآن میں بیویوں کے علاوہ کنیز یا لونڈی سے تعلق کی اس اجازت کو دوسرے مقام پہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
"اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے انصاف نہ کر سکو گے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈیاں جن کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے۔" (النساء: 4)
اس آیت میں خدا نے مردوں کو چار عورتوں تک نکاح کرنے کی اجازت دی اور ساتھ فرمایا کہ اگر ان کے درمیان انصاف نہ کر سکو تو ایک بیوی ہی کافی ہے یا پھر وہ لونڈیاں جو تمھاری ملکیت میں ہوں۔ یہاں بھی لونڈی کی اجازت کو بیوی سے علیحدہ بیان کیا گیا ہے۔
4) اسی طرح نبی ﷺکے لئے بھی بیان ہوا:
"اے نبیؐ، ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں، اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں۔۔۔۔"  (الأحزاب: 50)
اس آیت میں بھی بیویوں کے علاوہ لونڈیوں کے حلال ہونے کو علیحدہ سے بیان کیا گیا ہے۔
٢) شوہروں والی خواتین جو لونڈیاں بن جائیں
1)قرآن میں ارشاد ہوا: 
 اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں یہ الله کا قانون تم پر لازم ہے۔ (النساء: 24)
قرآن نے اس قانون کو تاکید کے لئے "کتب اللہ علیکم" کے حکم کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مولانا مودودی ان الفاظ کا ترجمہ کچھ یوں کرتے ہیں:
" یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کر دی گئی ہے۔"
2) صحیح مسلم میں اس آیت کے بارے تفصیل یوں بیان ہوئی ہے:
"سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے حنین کے دن ایک لشکر روانہ کیا اور وہ لوگ دشمن سے مقابل ہوئے اور ان سے لڑے اور غالب آئے اور ان کی عورتیں پکڑ لائے، سو بعض اصحاب رسولﷺنے ان سے صحبت کرنے کو بُرا جانا، اس وجہ سے کہ ان کے شوہر مشرکین موجود تھے، سو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ» (النسأ:24) یعنی ”حرام ہیں عورتیں شوہروں والیاں مگر جو تمہاری ملک (قبضہ) میں آ گئیں۔“ یعنی قید میں کہ وہ تم کو حلال ہیں جب ان کی عدت گزر جائے۔
(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، رقم 3608 دارالسلام)
3) صحابی رسول حضرت رویفع بن ثابت انصاری سے روایت ہے "سنو! میں تم سے وہی کہوں گا جو مَیں نے رسول اللہﷺسے سنا ہے، آپ جنگ حنین کے دن فرما رہے تھے: ”اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے“، (آپ ﷺکا مطلب حاملہ لونڈی سے جماع کرنا تھا) اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی قیدی لونڈی سے جماع کرے یہاں تک کہ وہ استبراء رحم کر لے، (یعنی یہ جان لے کہ یہ عورت حاملہ نہیں ہے) اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے شخص کے لیے حلال نہیں کہ مال غنیمت کے سامان کو بیچے یہاں تک کہ وہ تقسیم کر دیا جائے۔
(سنن ابوداؤد، رقم 2158 / سنن ترمذی، رقم 1131)
امام ابو داؤد نے اس حدیث پہ باب قائم کیا ہے: "باب فِي وَطْءِ السَّبَايَا" یعنی قیدی لونڈیوں سے جماع کرنے کا بیان
اس حدیث میں بھی واضح طور پہ جنگ میں قیدی بنائی گئی عورتوں یعنی لونڈیوں سے جماع کی اجازت بیان ہوئی ہے ، صرف عدت گزارنا یعنی استبراء رحم شرط اور ضروری ہے کہ وہ پہلے سے حاملہ نہ ہو۔ اگلی حدیث (سنن ابوداؤد :2159) میں بیان ہوا ہے کہ لونڈی کے لئے یہ استبراء رحم اور عدت ایک حیض ہے۔
٣) لونڈیوں کا بیچنا
1) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہمیں جو لونڈیاں ملتی ہیں (ہم ان سے جماع کرتے ہیں لیکن) ان کے عوض قیمت وصول کرنا بھی پسند کرتے ہیں، ایسے حالات میں عزل کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا: ” کیا تم ایسا کرتے ہو؟تم ایسا نہ بھی کرو تو کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ جس روح کا آنا اللہ نے لکھ دیاہے وہ تو آ کے رہے گی (تم عزل کرو یا نہ کرو)۔ " (صحیح بخاری، رقم 2229)
دوسری روایت کے لفظ ہیں: " قبیلہ انصار کا ایک آدمی آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لونڈیوں سے ہمبستری کرتے ہیں اور مال سے محبت کرتے ہیں (یعنی انہیں ہم نے بیچ کر مال بھی حاصل کرنا ہوتا ہے)" (صحیح بخاری، رقم 6603)
اس حدیث میں لونڈیوں سے جماع اور عزل کا حکم بیان ہوا ہے جنہیں بعد میں بیچنا بھی ہوتا تھا تو صحابہ کرام نہیں چاہتے تھے کہ وہ حاملہ ہو جائیں، جنہیں بیچنا مشکل ہو جائے۔
امام بخاری نے پہلی حدیث پہ باب باندھا ہے: "بَابُ بَيْعِ الرَّقِيقِ" یعنی غلام لونڈی بیچنے کا باب
2) رسول ﷺ کے خود غلام اور لونڈی بیچنے کا بیان بھی کتب احادیث میں آیا ہے۔ مثال کے طر پہ صحابی رسول حضرت عداء بن خالد کے پاس رسولﷺ کی جاری کردہ باقاعدہ رسید موجود تھی کہ انہوں نے آپﷺ سے فلاں غلام یا لونڈی خریدی۔
 دیکھئے سنن ابن ماجہ (رقم 2251)، سنن ترمذی (رقم 1216)
امام ابن ماجہ نے اس حدیث میں باب باندھا ہے: بَابُ شِرَاءِ الرَّقِيقِ یعنی غلام یا لونڈی خریدنے کا بیان
٤) لونڈیوں سے نکاح کر کے بیوی بنا لینا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آزاد عورتوں سے نکاح کیا جاتا تھا اور جو عورتیں جنگوں میں حاصل ہوتی تھیں یا خریدی گئی لونڈیاں تھیں، ان سے بغیر نکاح اور مہر بھی ہمبستری و جماع کی اجازت تھی، جیسا کہ اوپر تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ مگر کوئی چاہے تو اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح بھی کر سکتا تھا۔ ایسی صورت میں وہ صرف لونڈی نہ رہتی بلکہ بیوی بن جاتی تھی۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ مشہور ہے کہ آپ بھی جنگ میں بطور لونڈی ہی حاصل ہوئی تھیں اور ایک دوسرے صحابی دحیہ کے حصہ میں آئی تھیں لیکن بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے لئے پسند کر لیا تھا۔ مگر انہیں صرف لونڈی کے طور پہ نہ رکھا بلکہ انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا اور ان کی آزادی کو ہی ان کا مہر قرار دیا۔ دیکھئے صحیح بخاری (رقم 947)
اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال رہی تو حضرت صفیہ کے واقعہ کی تفصیل آگے چل کےبیان ہو گی، ان شاء اللہ
لونڈی کو آزاد کرنے کے بعد اس سے نکاح کر کے اسے بیوی بنا لینا ایک الگ اجازت ہے اور لونڈیاں وہ تھیں جو بغیر نکاح کے ہی موجود رہتی تھیں اور جن کی خرید و فروخت کا بھی معمول تھا۔ایک حدیث میں بھی تین طرح کے لوگوں کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے دگنا اجر کی بشارت دی ہے۔ ان میں سے تیسرا شخص وہ ہے:
"اور وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی ہو، جس سے ہمبستری کرتا ہے اور اسے تربیت دے تو اچھی تربیت دے، تعلیم دے تو عمدہ تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے، تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے۔" (صحیح بخاری، رقم 97 / الادب المفرد، رقم 203)
شبہ: کہا جاتا ہے کہ صرف لڑنے والی خواتین کو لونڈی بنایا جاتا تھا۔
جواب: یہ صریح غلط اور خلافِ واقعہ بات ہے کیونکہ دلہن بنی ہوئی خواتین اور اسی طرح بچوں تک کو غلام لونڈی بنایا جاتا تھا، جن کا کسی لڑائی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تھا۔ اس بارے دلائل اور تفصیل ملاحظہ کیجئے:
٥) بزور قوت جنگ میں غلام لونڈی بنانا
1) حضرت انس سے روایت ہے کہ "نبی ﷺ خیبر تشریف لائے، جب اللہ تعالیٰ نے خیبر کے قلعوں پر آپ کو فتح عطا فرمائی تو آپ سے حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب کا حسن وجمال ذکر کیاگیا۔ ان کا شوہر قتل ہو چکا تھا اور وہ خود دلہن بنی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے لیے منتخب فرما لیا۔۔۔۔"
(صحیح بخاری، رقم 2235 / سنن ابو داؤد، رقم 2995)
دوسری روایت میں ہے: "ہم نے خیبر کو بزور قوت حاصل کیا۔ قیدیوں کو اکٹھا کر لیا گیا تو حضرت دِحیہ آپ ﷺکے پاس آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے قیدیوں میں سے ایک لونڈی عطا کیجئے۔ آپﷺنے فرمایا: ”جا کر ایک لونڈی لے لو“ تو انہوں نے صفیہ بنت حُیی کو لے لیا۔ اس پر ایک آدمی اللہ کے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے نبی ( ﷺ)! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کو صفیہ بنت حُیی عنایت کر دی ہے جو بنو قریظہ اور بنو نضیر کی شہزادی ہے؟ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی کے شایانِ شان نہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ”انہیں اس (لڑکی) سمیت بلا لاؤ۔“ وہ اسے لے کر حاضر ہوئے، جب نبیﷺنے صفیہ کو دیکھا تو فرمایا: ”قیدیوں میں سے اس کے سوا کوئی اور لونڈی لے لو۔“
(صحیح مسلم، رقم 1365، دارالسلام 3497)
ایک اور روایت میں تفصیل آئی ہے کہ نبی ﷺنے حضرت دحیہ کو حضرت صفیہ کے عوض سات لونڈیاں دے کر خریدا تھا۔ 
دیکھئے صحیح مسلم (رقم 1365، دارالسلام 3500) 
٦) اچانک بے خبری میں حملہ کر کے غلام لونڈی بنانا
1) حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بنو مصطلق پر حملہ کیا تو وہ بالکل بے خبر تھے اور ان کے جانوروں کو تالاب پر پانی پلایا جا رہا تھا، چنانچہ آپ نے ان کے لڑنے والوں کو قتل کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔ انہی قیدیوں میں جویریہ (بنت حارث) بھی تھیں۔" (صحیح بخاری، رقم 2541)
اس طرح اچانک حملے میں بھی جو عورتیں بچے قیدی بنتے تھے انہیں مال غنیمت کے طور پہ تقسیم کر لیا جاتا تھا۔ چنانچہ اسی بنو مصطلق کی جنگ کے بارے آیا ہے: "ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بنی مصطلق کے خلاف جنگ کی اور عرب کی چنیدہ عورتیں بطور غنیمت حاصل کی۔۔۔۔" (صحیح مسلم، رقم 1438، دارالسلام 3544)
2) سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "رسول اللہ ﷺنے (ایک حملہ کے لئے) حضرت ابوبکر صدیق کو ہمارا امیر بنایا، پھر ہم مشرکین سے جہاد کے لئے نکلے۔ ہم نے ان پر شبِ خون مارا۔ اس رات ہمارا شعار (کوڈ ورڈ) "امت امت" تھا۔ سلمہ کہتے ہیں کہ اس رات میں نے اپنے ہاتھ سے سات گھروں کے مشرکین کو قتل کیا تھا۔" (سنن ابو داؤد، رقم 2638)
شب خون رات میں اچانک حملے کو کہا جاتا ہے اور اس میں اپنے گھروں میں موجود مردوں کو مار دیا گیا جبکہ عورتوں اور بچوں کو پکڑ کے بطور غنیمت بانٹ لیا گیا۔
3) چنانچہ راتوں رات چڑھائی کرتے ہوئے اسی جنگ کے بارے سلمہ کہتے ہیں: ہم ابوبکر (رضی اللہ عنہ )کے ساتھ نکلے، رسول اللہﷺ نے ان کو ہمارا امیر بنایا تھا، ہم نے قبیلہ بنی فزارہ سے جنگ کی، ہم نے ان پر اچانک حملہ کیا، کچھ بچوں اور عورتوں کی گردنیں ہمیں نظر آئیں، تو میں نے ایک تیر چلائی، تیر ان کے اور پہاڑ کے درمیان جا گرا وہ سب کھڑے ہو گئے، پھر میں ان کو پکڑ کر ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس لایا، ان میں فزارہ کی ایک عورت تھی، وہ کھال پہنے ہوئی تھی، اس کے ساتھ اس کی لڑکی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں سے تھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کی بیٹی کو بطور انعام دے دیا۔۔۔۔ الخ (سنن ابوداؤد، رقم2697)
لہٰذا یہ کہنا بالکل غلط اور دھوکہ دینے والی بات ہے کہ صرف لڑنے والی عورتوں کو غلام لونڈی بنایا جاتا تھا بلکہ اچانک حملہ کر کے بھی مردوں کو گھروں میں قتل کیا جاتا اور عورتیں اور بچے قیدی بنا کے غلام لونڈیاں بنائے جاتے جو مال غنیمت کے طور پہ تقسیم ہوتے۔
امام بخاری نے باقاعدہ باب باندھا ہے کہ "بَابُ مَنْ مَلَكَ مِنَ الْعَرَبِ رَقِيقًا فَوَهَبَ وَبَاعَ وَجَامَعَ وَفَدَى وَسَبَى الذُّرِّيَّةَ"
یعنی اس بارے دلائل کہ اگر عربوں پر جہاد ہو اور کوئی ان کو غلام بنائے پھر ہبہ کرے یا عربی لونڈی سے جماع کرے یا فدیہ لے یا بچوں کو قید کرے (تو یہ سب درست ہے)
ایک اہم اسلامی اصول
فائدہ: یہاں ایک اہم اسلامی اصول کا تذکرہ فائدے سے خالی نہ ہو گا کہ اسلامی حملے صرف دشمن کی بستیوں اور علاقوں پہ نہ کئے جاتے تھے بلکہ ان پہ بھی کئے جاتے تھے جن سے دشمنی تو دُور یہ بھی علم نہ ہوتا تھا کہ وہ مسلمان ہیں یا نہیں۔
چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺطلوع فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے، پھر اگر اذان سن لیتے تو رک جاتے ورنہ حملہ کر دیتے۔۔۔"
(صحیح مسلم، رقم 382، دارالسلام 847 / سنن ابو داؤد، رقم 2634 / سنن ترمذی، رقم 1318)
یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان علاقوں اور بستیوں پہ بھی حملہ کیا جاتا تھا جن سے ہرگز کوئی دشمنی اور مخالفت نہ تھی ،حتیٰ کہ یہ بھی علم نہ ہوتا تھا کہ وہ مسلمان ہیں یا نہیں۔ چنانچہ انتظار کیا جاتا اور اگر اذان نہ ہوتی تو یقین کر لیا جاتا کہ وہ مسلمان نہیں، سو ان پہ اچانک حملہ کر دیا جاتا۔ مقابلے میں لڑنے والے مرد مارے جاتے اور باقی عورتوں بچوں سمیت مال غنیمت کے طور پہ باقی مال اسباب کی طرح تقسیم کئے جاتے۔
٧) جنگ کے بغیر اہل و عیال پہ قبضہ
یہ معاملہ صرف جنگوں یا اچانک حملوں تک بھی محدود نہ تھا بلکہ عمومی طور پر بھی اپنے مخالفین کے مال اسباب اور بیوی بچوں پہ قبضہ کیا گیا۔ یہ واقعہ دیکھئے:
رعیہ السحیمی یمامہ کا رہنے والا اور بنو حنیفہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے بارے میں موجود ہے کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رعیہ السحیمی کی طرف (چمڑے کے ٹکڑے پر) خط لکھا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ کا خط پکڑا اور اس کے ساتھ اپنے ڈول کو پیوند لگا لیا (مطلب کہ کوئی پرواہ نہ کی)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا۔ انہوں نے (جا کر) اس کے اہل و عیال اور مال پر قبضہ کر لیا۔"
پھر یہ بڑی ندامت کے ساتھ ذلیل و رسوا ہو کر مدینہ منورہ پہنچا اور بیعت اسلام کی اور اپنے اہل و عیال بچا لئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: "اے لوگو! یہ رعیہ السحیمی ہے، جس کی طرف مَیں نے خط لکھا تو اس نے میرا خط لے کر اسی سے اپنا ڈول سی لیا، اب اسلام لے آیا ہے۔"
(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 37794، دوسرا نسخہ 36639 / المعجم الكبير للطبراني، رقم 4635 / مسند احمد، رقم 22365 / مجمع الزوائد، رقم 10348 / الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، رقم 2661)
٨) آزادی کے بعد غلام لونڈی بنانا
جنگوں میں جو غلام لونڈیاں بنائے جاتے ان کو بیچنے کے بارے پیچھے احادیث گزر چکی ہیں۔ مگر ایسی صورتیں بھی موجود ہیں، جن میں آزادی کی شرط پوری ہو جانے والے غلام (یا لونڈی) کو بھی دوبارہ بیچا جا سکتا ہے۔
1) چنانچہ حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے مدبر غلام کو بیچا تھا۔ (صحیح بخاری، رقم 2231)
مدبر سے مراد وہ غلام ہے جسے اس کا مالک یہ کہہ دے تُو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے۔ (فتح الباری: 531/4)
دوسری روایت میں تفصیل آئی ہے کہ "انصار کے ایک شخص نے اپنے غلام کو مدبر بنا دیا (یعنی اس سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو)، پھر وہ مر گیا، اور اس غلام کے علاوہ اس نے کوئی اور مال نہیں چھوڑا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے بیچ دیا۔"
(سنن ترمذی، رقم 1219)
گویا اس صحابی کی وفات کے بعد وہ آزاد ہو چکا تھا لیکن فوت ہونے والے کے پاس اور کوئی مال نہیں تھا تو اس بنا پہ غلام کی اس آزادی کو کالعدم قرار دیا گیا اور اسے دوبارہ بیچ دیا گیا۔ یہی اصول لونڈیوں پہ بھی لاگو رہے گا۔ واللہ اعلم
2) اسی طرح حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ "ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلام آزاد کیے اور اس کے پاس ان کے سوا اور کوئی مال نہ تھا تو رسول اللہ ﷺنے انہیں بلوایا اور تین گروپوں میں تقسیم کیا، پھر ان کے درمیان قرعہ ڈالا، اس کے بعد دو کو آزاد کر دیا اور چار کو غلام ہی برقرار رکھا اور آپ نے اسے سرزنش کی۔"
(صحیح مسلم، رقم 1668، دارالسلام 4335)
٩) لونڈیوں میں سے اپنے بچوں کی مائیں (اُم ولد) بیچنا
اُم ولد اس لونڈی کو کہا جاتا ہے جس سے مالک کی اولاد بھی پیدا ہو جائے یعنی لونڈیوں میں سے اپنے بچوں کی ماں ام ولد کہلاتی، جس کی جمع امہات الاولاد ہے۔
1) حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ اپنی لونڈیاں اور امہات الاولاد (اپنے بچوں کی مائیں) بیچا کرتے تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان زندہ تھے، اور ہم اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ، رقم 2517)
2) نبی ﷺ اور پھر حضرت ابوبکر کے دور میں بھی لونڈیوں میں سے اپنے بچوں کی مائیں بھی بیچی جاتی رہیں لیکن پھر حضرت عمر نے اپنے زمانے میں امہات الاولاد کو بیچنے سے روک دیا۔ دیکھئے سنن ابو داؤد (رقم 3954)
فائدہ: یاد رہے کہ عمومی طور پہ مسائل میں صحابہ کرام کا نظریہ یہ تھا کہ اگر ایک کام سے رسول ﷺکے زمانہ میں روکا نہیں گیا جبکہ قرآن اور وحی نازل ہوتی تھی تو وہ کام جائز اور مباح ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وحی کے ذریعہ ضرور روک دیا جاتا۔
 دیکھئے صحیح مسلم (رقم 1440، دارالسلام 3559)
حضرت عمر کے دور میں ہی لونڈیوں کے سلسلے میں مسائل کس نہج پہ پہنچ چکے تھے، درج ذیل روایت سے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں:
حضرت صفیہ بنت ابی عبید سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا: لوگ کیا کرتے ہیں کہ اپنی لونڈیوں کے ساتھ صحبت کر لیتے ہیں اور پھر انہیں باہر نکلنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ میرے پاس جو بھی لونڈی آئی جس کا مالک یہ اعتراف کرے کہ اس لونڈی کے ساتھ صحبت کی ہے تو مَیں اس لونڈی کے بچے کا نسب اس کے مالک سے ہی منسوب کر دوں گا، پھر چاہے تم انہیں چھوڑ دو یا اپنے پاس رکھو۔"
(موطأ الإمام مالك برواية أبي مصعب الزهري، رقم 2881، دوسرا نسخہ 1455 شبیر برادرز / سنن الکبری للبیھقی، ج7 ص678، رقم 15375)
١٠) لونڈیاں تحفے میں لینا دینا
1) مصر اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے دیگر تحائف کے ساتھ دو کنیزیں ماریہ اور سیرین نبی ﷺ کے پاس بھجوائی تھیں۔ جن میں سے حضرت ماریہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے پسند کر لیا اور ان کی بہن سیرین کو اپنے صحابی حضرت حسان بن ثابت کو تحفے میں دے دیا۔
حضرت ماریہ سے ہی آپﷺ کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے تھے  جس وجہ سے حضرت ماریہ کو اُم ابراہیم کہا جاتا تھا۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: الطبقات الكبرى لإبن سعد (ج1ص107)، معرفة الصحابة لابن منده (ص971)، معرفة الصحابة لأبي نعيم (ج6 ص3366، رقم 7697)، أسد الغابة لإبن الأثير (ج7 ص253، رقم7276)
2) ایک معاملے میں نبی ﷺ  اُم المومنین حضرت زینب سے شدید ناراض ہو گئے حتیٰ کہ دو ماہ گزر گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب سے ناراض رہے اور ان کی طرف چکر تک نہ لگایا۔ ناراضی کے تیسرے ماہ آپ ان کی طرف گئے۔
جب حضرت زینب نے آپ ﷺ کو دیکھا تو کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے آنے سے (مجھے اتنی خوشی ہوئی ہے) کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مَیں کیا کروں؟
وہ کہتی ہیں: ان کی ایک لونڈی تھی، جس کو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چُھپا کر رکھتی تھیں۔ (حضرت زینب نے اس خوشی میں) کہا: فلاں لونڈی آپ کے لیے ہے۔ (یعنی وہی لونڈی نبی صلعم کو ہبہ اور تحفہ کر دی)۔
(مسند احمد، ج6 ص337-338، رقم26866 / سلسلة الأحاديث الصحيحة، ج7 ص622، رقم3205)
تنبیہ: روایت میں اس بات کی کوئی وضاحت موجود نہیں کہ اُم المومنین حضرت زینب اپنی لونڈی نبی ﷺسے چُھپا کے کیوں رکھتی تھیں؟ ہمیں بھی اس بارے غور کرنا ضروری نہیں بلکہ یہ جان لینا کافی کہ انہوں نے اپنی خوشی سے وہی لونڈی نبی ﷺ کو ہبہ کر دی تھی۔
واللہ اعلم