تخطي للذهاب إلى المحتوى
افکارنو
  • مرکزی صفحہ
  • مضامین اور تحریریں
    • قرآن
    • حدیث و تاریخ
    • سیرت
    • صحابہ کرام
    • عقیدہ و احکام
    • نقد و نظر
    • مالیات
    • متفرقات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
افکارنو
      • مرکزی صفحہ
      • مضامین اور تحریریں
        • قرآن
        • حدیث و تاریخ
        • سیرت
        • صحابہ کرام
        • عقیدہ و احکام
        • نقد و نظر
        • مالیات
        • متفرقات
      • ہمارے بارے میں
    • رابطہ

    مخنث اور اسلام

    (خواجہ سرا / ہیجڑے)
  • كافة المدونات
  • عقیدہ و احکام
  • مخنث اور اسلام
  • 14 سبتمبر 2022 بواسطة
    شعیب محمد

    مخنث اور اسلام

    تعریف:
    وزارت اوقاف و اسلامی امور (کویت) کی زیر نگرانی سینکڑوں علماء و محققین کی محنت سے تیار ہونے والے اسلامی فقہ کے انسائیکلوپیڈیا میں "مخنث" کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا:
    "اور اصطلاح میں (مخنث) وہ شخص ہے جس کی حرکتیں پیدائشی طور پر یا بناوٹی طور پر عورتوں کی حرکتوں کے مشابہ ہوں۔۔۔۔۔ اور ابن حبیب نے کہا ہے کہ مخنث وہ مرد ہے جو عورت کے مشابہ ہو، اگرچہ اس کی طرف بے حیائی معلوم نہ ہو۔ "
    (موسوعہ فقہیہ، ج36 ص314، مطبوعہ مجمع الفقہ الاسلامی الہند)

    اسلامی فقہ و قانون کے معروف عالم دکتور وھبہ زحیلی (رکن مجمع الفقہ الاسلامی) اپنے مشہور فقہی انسائیکلوپیڈیا میں لکھتے ہیں:
    "ہیجڑا اس کو کہتے ہیں جس میں دونوں نسلی اعضاء مردانہ عضو اور زنانہ عضو اکٹھے ہوں یا جس میں ان میں سے بالکل کوئی عضو نہ ہو۔۔۔"
    (الفقہ الاسلامی و ادلۃ، ج5 حصہ دہم، ص805، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)

    دورِ حاضر کے ایک اہل حدیث عالم مولانا عبدالمنان راسخ ایک جگہ لکھتے ہیں: ""مخنث" یہ مرد اور عورت کی درمیانی مخلوق کو کہتے ہیں ان کے اعضاء کی مشابہت کے اعتبار سے ان پر مرد یا عورت والا حکم لگایا جاتا ہے۔"
    (حاشیہ سنن دارمی، ج2 ص427، تحت رقم 2691)

    اختصار کے ساتھ اسلامی فقہ اور علماء کے ہاں موجود اس اصطلاحی تعارف کے بعد عرض ہے کہ قرآن میں براہ راست خواجہ سراؤں یا ہیجڑوں کے بارے کوئی تذکرہ موجود نہیں۔ ان کے حوالے سے احادیث و آثار میں جن امور پہ روشنی پڑتی ہے، وہ کچھ یوں ہیں:

    1) انہیں گھروں سے نکال دو

    ایک ہیجڑا نبی ﷺکی ازواج کے گھروں میں آتا جاتا تھا۔ ایک دن اس نے حضور کے سامنے کسی عورت کے پیٹ پر پڑنے والے بل کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی خوبصورتی بیان کی تو حضور ﷺ نے فرمایا: "یہ (ہیجڑے) تمھارے ہاں داخل نہ ہوا کریں۔"
    (صحیح مسلم، کتاب السلام، باب منع المحنث من الدخول علی النساء الاجانب، رقم 2180، دارالسلام 5690 / صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الطائف فی شوال۔۔۔، رقم 4324)

    ایک روایت میں ہے کہ "انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔"
    (سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب في الحكم في المخنثين، رقم 4929)

    کچھ روایات میں یہ وضاحت موجود ہے کہ جب یہ بات ہوئی تو"یہ ہیجڑا ام المومنین حضرت ام سلمہ کے گھر میں بیٹھا تھا".
     دیکھئے مسند أبي يعلى (رقم 6960)، السنن الكبرى للبيهقي (رقم 16981)، صحیح بخاری (رقم 5887)

    2) آبادی سے دور شہر بدر کرنا

    اس ہیجڑے کو اس بات پر نہ صرف گھروں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا بلکہ "اسے (مدینہ کی آبادی سے دور) نکال دیا گیا۔ چنانچہ وہ مقام بیداء میں رہتا تھا اور ہر جمعہ کو آ کر کھانے پینے کی چیزیں مانگ کر لے جایا کرتا۔"
    (سنن ابو داؤد، کتاب اللباس، باب فی قولہ تعالیٰ: غیر اولی الاربۃ، رقم 4109)

    حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "اپنے گھروں سے مخنثین کو نکال دو"، رسول اللہ نے بھی مخنثین کو نکالا اور حضرت عمر نے بھی نکالا۔
    (لسنن الكبرى للبيهقي، کتاب الحدود، باب ما جاء في نفي المخنثين، رقم 16985)

    امام بیہقی نے اس پہ باب باندھا ہے: "ہیجڑوں کو جلاوطن کرنے کا بیان"
     
    (السنن الكبرى للبيهقي، کتاب الحدود، باب ما جاء في نفي المخنثين)

    3) بھیک مانگ کر گزارہ کریں

    کچھ لوگوں نے اس پر کہا: "اے اللہ کے رسول! (اگر اسے اس طرح دور رہنے پر مجبور کر دیا گیا تو) یہ بھوک سے ہی مر جائے گا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دی کہ ہر ہفتے دو بار آ جایا کرے، لوگوں سے سوال کرے (یعنی مانگ تانگ کر ضرورت پوری کرے) اور واپس لوٹ جایا کرے۔"
    (سنن ابو داؤد، کتاب اللباس، باب فی قولہ تعالیٰ: غیر اولی الاربۃ، رقم 4110)

    مشہور محدث و شارح حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس مخنث کا نام کئی روایات کی بنا پہ 'ھیت' بیان کیا ہے۔ نیز اس کے تذکرہ میں لکھا ہے:
    "رسول اللہﷺ نے اس کے بارے حکم دیا، اسے مدینہ میں ذی الحلیفہ کے پاس جبل عیر کی طرف جلاوطن کر دیا گیا۔ بعض صحابہ نے اس کے لئے سفارش کی کہ (ایسے تو) وہ بھوک سے مر جائے گا۔ آپ ﷺنے اسے اجازت دی کہ ہر جمعہ کو کھانا لے لے، پھر اپنی جگہ واپس چلا جائے، وفات تک وہیں رہا۔"
    (الاصابہ فی تمییز الصحابہ، رقم 9023، ج6 ص365، مکتبہ رحمانیہ لاہور)

    4) جان کی امان

    حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک شخص کو رسول اللہ ﷺکی اُمِ ولد (آپ کے بیٹے کی والدہ) کے ساتھ متہم کیا جاتا تھا تو رسول اللہﷺ نے حضرت علی سے کہا: جاؤ اور اس کی گردن اڑا دو۔
    حضرت علی اس کے پاس گئے تو وہ ایک اتھلے (کم گہرے) کنوئیں مین ٹھنڈک کے لئے غسل کر رہا تھا۔ حضرت علی نے اس سے کہا نکلو اور اسے اپنا ہاتھ پکڑایا اور اسے باہر نکالا تو دیکھا کہ وہ ہیجڑا ہے، اس کا تو عضو مخصوص تھا ہی نہیں۔ اس پر حضرت علی اسے قتل کرنے سے رک گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول وہ ہیجڑا ہے، اس کا عضو مخصوص ہے ہی نہیں۔"
    (صحیح مسلم، کتاب التوبۃ، براءة حرم النبي صلى الله عليه وسلم من الريبة، رقم 2771، دارالسلام 7023)
    گویا ہیجڑا ہونے کی وجہ سے اس کی جان کو امان مل گئی۔ یہاں واضح طور پہ ایک ایسی رخصت حاصل ہوئی جو ایسا الزام لگنے پہ ہیجڑا نہ ہونے کی صورت ممکن نہیں تھی۔

    5) خصی ہونے والے کا حکم

    یہاں پہ مخنثین کے علاوہ ایک اور قسم پہ بات کرنا بھی ضروری ہے جو خصی ہو چکے ہوں۔ گویا کہ وہ جب پیدا ہوئے تو اپنے جنسی اعضاء کے ساتھ تھے لیکن پھر ان کے جنسی اعضا کٹ گئے یا کسی وجہ سے ختم ہو گئے۔

    وزارت اوقاف و اسلامی امور (کویت) کی زیر نگرانی شائع ہونے والے اسلامی فقہ کے انسائیکلوپیڈیا میں "خصاء" کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا: "اصطلاح میں فقہاء لفظ خصاء کا استعمال ذکر کے بغیر یا ذکر کے ساتھ خصتین کاٹ دینے کے معنی میں کرتے ہیں۔"
    (موسوعہ فقہیہ، ج19 ص154، مطبوعہ مجمع الفقہ الاسلامی الہند)

    ان کے حوالے سے یہ چند آثار پیش خدمت ہیں:

    ٭ حضرت علی سے مروی ہے کہ "خصی شخص کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ کسی پاکدامن عورت کے ساتھ شادی کرے۔"
    (مصنف عبدالرزاق، کتاب النکاح، باب نکاح الخصی، رقم 10719، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور / مصنف ابن ابی شیبۃ، رقم 17942)

    غالباً یہ حکم تب ہے جب عورت کو اس بارے دھوکے میں رکھا گیا ہو کیونکہ حضرت عمر نے اس بات کو تب ناجائز قرار دیا تھا جب عورت کو اس کے خصی ہونے کا علم نہ ہو۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (رقم 17941)

    ٭ اس کے مقابلے میں مشہور تابعی امام و محدث ابن شہاب زہری سے ایسے خصی شخص کے بارے پوچھا گیا جو آزاد عورت کے ساتھ شادی کر لیتا ہے تو انہوں نے جواب دیا:" اس میں کوئی حرج نہیں ہے اگر عورت راضی ہو تو خصی سے شادی کر لے۔"
    (مصنف عبدالرزاق، کتاب النکاح، باب نکاح الخصی، رقم 10718، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

    ٭ حضرت ابن سیرین سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے حضرت علقمہ کی گواہی جو کہ خصی تھے، ابن مظعون کے خلاف قبول فرمائی تھی۔
    (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب البیوع، باب فی شہادۃ الخصی، رقم 23679)

    فائدہ: یہاں جدید مسائل پہ نظر رکھنے والے اسلامی محققین و دانشوروں کے لئے غور طلب بات یہ ہے کہ خصی ہونا یعنی ان جنسی اعضا کے ساتھ نہ ہونا جن کے ساتھ وہ پیدا ہوئے، اگر کسی سبب سے ہی ہو تو ان احکام میں ان لوگوں کو کیوں شامل نہ سمجھا جائے جو تبدیلی جنس کے مسئلہ سے گزرتے ہیں؟

    اضافہ

    میرے علم کے مطابق جن احادیث و روایات میں خواجہ سراوں یا ہیجڑوں کے بارے تذکرہ ہے اور دورِ نبوی میں خواجہ سرا کا کسی عورت کی خوبصورتی کا تذکرہ کرنے پہ ان کے ساتھ جو ہوا اور جو احکام دئے گئے وہ مکمل حوالوں کے ساتھ اوپر پیش کر دئے گئے ہیں۔ خواجہ سراؤں سے متعلق یہ تحریر مکمل ہوئی۔

    نیچے اب سیرت نبوی کا ایک اور واقعہ پیشِ خدمت ہے، جس کا کوئی تعلق اوپر والی تحریر سے نہیں بلکہ ایک اضافہ کے طور پر اشاعت حدیث اور ثواب کی نیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔

    حضرت عائشہ نے بیان کر رکھا ہے کہ غزوۃ بنو مصطلق میں حضرت جویریہ کسی دوسرے صحابی کے حصے میں آئی۔ "یہ بہت خوبصورت خاتون تھیں اور ہر آنکھ کو بھلی لگتی تھیں۔" حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ "یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی کہ اپنی مکاتبت کے سلسلے میں آپ سے کچھ مدد لے۔ جب یہ دروازے پر کھڑی ہوئی اور میں نے اس کو دیکھا تو مجھے اس کا کھڑا ہونا پسند نہ آیا۔ میں جان گئی کہ رسول اللہ ﷺبھی اسی طرح دیکھیں گے جیسا کہ مَیں نے دیکھا ہے (یعنی کہ وہ بہت خوبصورت ہے)۔۔۔۔"
    رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: "مَیں تمھاری طرف سے مکاتبت ادا کر دیتا ہوں اور تم سے شادی کر لیتا ہوں۔"
     اس نے کہا: مَیں رضامند ہوں۔ سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ "پھر لوگوں نے یہ خبر سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ سے شادی کر لی ہے۔"
    (سنن ابو داؤد، کتاب العتق، باب في بيع المكاتب إذا فسخت الكتابة، رقم 3931)

    واللہ اعلم

    (شعیب محمد)

    مخنث (ہیجڑے)؛ چند ضمنی مباحث
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    (ایک مکالمہ)

    1) فرمایا: اسلام نے قیامت تک کے تمام مسائل کا حل دے رکھا ہے۔ ٹرانسجینڈرز اور خواجہ سراؤں کے حقوق کا تعین بھی اسلام نے صدیوں پہلے کر دیا ہے۔ ہمیں اس کے لئے مغرب کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔

    عرض: جی بالکل لیکن پورے قرآن میں خدا نے ٹرانسجینڈرز کے احکام تو دور تذکرہ تک نہیں کیا۔

    2) فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں صرف انسانی معاشرے کے بڑے اکثریتی اور اہم مسائل کے بارے رہنمائی کی گئی ہے۔

    عرض: جی بالکل اسی لئے قرآن میں جنات سے متعلق بھی تذکرہ و رہنمائی حتیٰ کہ کئی احکام موجود ہیں لیکن خواجہ سراؤں کے بارے نہیں۔

    3) فرمایا: قرآن میں نہ سہی احادیث میں ان کے بارے مکمل رہنما اصول اور احکامات دے دئے گئے ہیں۔

    عرض: بالکل! صدیوں پہلے ہمارے بہترین دور میں خواجہ سراؤں کی بحالی و حقوق پہ رہنمائی کر دی گئی تھی۔ انہیں گھروں سے نکال کے آبادی و شہروں سے باہر پُرفضا مقام میں بھجوایا گیا۔ انہیں محنت مزدوری نہ کرنی پڑے تو ہر ہفتے آبادیوں میں آ کر مانگ کر اپنا حصہ لے جائیں اور آرام سے بیٹھ کر کھائیں۔

    4) فرمایا: یہ سب کے لئے نہیں ہے بلکہ جو محنث و خواجہ سرا جان بوجھ کر عورتوں جیسا بنتے ہیں ان پہ لعنت کی گئی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں میں سے مخنثین اور مردانہ انداز اختیار کرنے والی عورتوں پہ لعنت کی ہے۔ اور فرمایا: انہیں اپنے گھروں سے باہر نکال دو اور فلاں کو باہر نکال دو یعنی ہیجڑوں کو۔ (سنن ابوداؤد: رقم 4930)

    عرض: جی! محنث و خواجہ سرا کہتے ہی انہیں ہیں، جن میں دونوں جنس کی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ چنانانچہ وہ جان بوجھ کے بنتے نہیں بلکہ ان میں دونوں خصوصیات پہلے سےہوتی ہیں۔
    دورِ نبوی میں ہمیں تین ہیجڑوں کا ذکر ملتا ہے جنہیں شہر سے باہر نکال دیا گیا تھا۔ دیکھئے سنن بیہقی (رقم 16983) ان کو ایک عورت کے جسمانی حسن کے تذکرہ پہ گھروں اور شہروں سے نکال دیا گیا، ان پہ لعنت کی گئی، حالانکہ اس سے پہلے نبی ﷺکی بیویوں کے پاس گھروں میں آتے جاتے تھے اور ان کے پاس بیٹھتے تھے۔ دیکھئے مسند أبي يعلى (رقم 6960)، السنن الكبرى للبيهقي (رقم 16981)، صحیح بخاری (رقم 5887)
    کیا یہ تصور کیا جانا ممکن ہے کہ یہ ویسے تو سارے مرد تھے اور جان بوجھ کر مخنث یا عورتوں جیسے بنے ہوئے تھے؟ خود صحابہ کرام انہیں پہلے بھی اور بعد میں بھی مخنث ہی سمجھتے تھے۔

    پھر یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض کسی عورت کی تعریف کرنے سے یہ نتیجہ نکالنا درست ہے کہ کوئی ہیجڑا فطری نہیں بلکہ جان بوجھ کے تکلف سے ایسا بنا ہوا؟ کیا عورتیں دوسری عورتوں کے حسن اور جسمانی خوبیوں کا تذکرہ نہیں کرتیں؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست ہے کہ ایسی عورتیں بھی مردانہ خصوصیات کی حامل ہیں اور انہیں گھروں اور شہروں سے باہر نکال دیا جانا چاہئے؟

    5) فرمایا: بہرحال جب حدیث میں ہے کہ رسول ﷺ نے ان پہ لعنت کی ہے تو ہمیں ان سے ہمدردی رکھنے کی ضرورت نہیں۔

    عرض: جہاں تک حدیث یا دیگر مذہبی و الہامی متون میں لعنت کا ذکر ہے تو یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو ضرور کسی کے ذاتی قصور پہ ہی بھیجی گئی ہو۔ مثال کے طور پہ

    ا) قران میں ایک درخت پہ لعنت کی گئی، اسے ملعون کہا گیا ہے۔ دیکھئے سورۃ الاسراء (آیت 60)

    قران ہی کی دیگر آیات کی بنا پہ مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد تھوہر کا درخت ہے حالانکہ تھوہر کی تخلیق میں اس کا اپنا ہرگز کوئی قصور نہیں۔

    ب) حضرت عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے فلاں شخص اور اس کی نسل میں پیدا ہونے والوں پہ لعنت فرمائی۔
    (مسند احمد، رقم 16227، دوسرا نسخہ رقم 16128)
    مشہور محقق شیخ شعيب الأرنؤوط نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ (مسند احمد: ج26 ص51)
    اس بحث سے قطع نظر کے اس شخص سے مراد کون تھا اور اس کا قصور کیا تھا لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس کی نسل میں آنے والے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان پہ بھی لعنت بھیجی گئی۔

    ج) یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف رسول ﷺ سے مروی ہے کہ "کسی صدیق کے لائق نہیں کہ وہ لعنت بھیجنے والا ہو۔" (صحیح مسلم، رقم 2597، دارالسلام 6608) اور دوسری طرف احادیث میں متعین و غیر متعین بہت جگہ لعنت کا استعمال ملتا ہے۔
    ایک طرف ہمیں ملتا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: " اور بلاشبہ جس نے کسی چیز پہ لعنت کی جس کی وہ مستحق نہ ہو تو یہ لعنت کرنے والے پہ لوٹ آتی ہے۔" (سنن ابوداؤد، رقم 4902)
    دوسری طرف یہ معاملہ یہاں تک بڑھا ہوا ملتا ہے کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ "آپ ﷺ نے دو آدمیوں کو بُرا کہا اور ان پہ لعنت بھیجی۔" جب سیدہ عائشہ نے اس بارے پوچھا تو فرمایا: "کیا تمھیں معلوم نہیں کہ مَیں نے اس بارے میں اپنے رب سے کیا طے کر رکھا ہے؟ فرمایا: اے اللہ! مَیں ایک انسان ہی ہوں، مَیں کسی مسلمان پہ لعنت بھیج دوں یا بُرا کہہ دوں تو اسے اس کے لئے گناہوں کی بخشش اور باعث اجر بنا دے۔" (صحیح مسلم، رقم 2600، دارالسلام 6614)

    چنانچہ محض مذہبی و الہامی متون میں موجود ایسے الفاط کو کسی کے بارے صراحت سے پیش کرنا یا اس بنیاد پہ انہیں بُرا بھلا اور حقیر سمجھنا یا ان کا قصور ماننا بہت الجھا ہوا معاملہ ہے۔ آج کے جدید دور کے مسائل پہ ایسے غیر صریح اور غیر واضح احکامات کی بنیاد پہ حکم لگانا ہرگز کوئی علمی معاملہ ہے نہ مبنی بر انصاف ہے۔ واللہ اعلم

    نوٹ:  ادارے کا مکالمہ کرنے والے فرمان کنندہ و عرض کنندہ میں سے کسی سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

    في عقیدہ و احکام
    # اسلام اسلامی مسائل تاریخ اسلام فقہی مسائل
    غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا حکم

    یہ ویب سائٹ علمی جستجو، مطالعہ اور فکری مباحث کو فروغ دینے کے مقصد سے قائم کی گئی ہے۔ یہاں آپ کو مذہب، تاریخ، عقیدہ و مسائل اور معاشی و مالی معاملات سے متعلق مضامین پیش کیے جاتے ہیں، تاکہ قاری اپنے علم میں اضافہ کرے اور مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کر سکے۔ ہماری کوشش ہے کہ مواد سادہ، قابلِ فہم اور تحقیق پر مبنی ہو، تاکہ یہ ہر سطح کے قارئین کے لیے مفید ثابت ہو۔

    رابطہ کیجئے

    اس ویب سائٹ پر شائع ہونے والی تحریریں  لکھنے والوں کی ذاتی آراء اور مطالعہ پر مبنی ہیں۔ کسی بھی ادارے، تنظیم یا جماعت کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ قاری اپنی سمجھ بوجھ اور تحقیق کے مطابق مواد سے استفادہ کرے۔

    • afkarenau@protonmail.com 
    Copyright © Company name
    مشغل بواسطة أودو - إنشاء موقع إلكتروني مجاني