رضاعت کبیر کا مسئلہ
رضاعت کبیر یعنی بڑی اور جوان عمر کے کسی شخص کو کسی عورت کا اپنا دودھ پلانا
پسِ منظر:
ابوحذیفہ نام کے ایک صحابی تھے جن کی بیوی کا نام سہلہ بنت سہیل تھا۔ انہوں نے سالم نامی ایک لڑکے کو منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا، جس کو انہوں نے پالا پوسا، شادی کی اور دونوں میاں بیوی سالم کو اپنا بیٹا ہی سمجھتے تھے۔ مگر جب قرآن پاک میں یہ حکم نازل ہو گیا کہ منہ بولے بیٹوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ وہ صرف تمھارے بھائی ہیں تو سالم کے اپنے گھر آنے جانے پر حضرت ابوحذیفہ کراہت کھانے لگے۔ اس سلسلے میں حضرت سہلہ بنت سہیل نبی کریمﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوئیں۔
اس ساری تفصیل کے لئے دیکھئے  المئوطا امام مالک (کتاب الرضاع، باب ماجاء فی الرضاعۃ بعد الکبیر، رقم 1288) 
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ)!  مَیں (اپنے خاوند) ابوحذیفہ کے چہرہ پر خفگی پاتی ہوں جب سالم میرےگھر آتا ہے اور وہ ان کا حلیف بھی ہے تو آپ ﷺنے فرمایا: "تم سالم کو دودھ پلا دو۔"
انہوں نے کہا: مَیں اسے کیونکر دودھ پلاؤں؟ اور وہ جوان مرد ہے (ایک روایت میں ہے کہ وہ تو داڑھی والا ہے۔ صحیح مسلم، رقم 3604 دارالسلام)۔
آپ ﷺ مسکرائے (ایک روایت میں ہے کہ ہنسے) اور فرمایا: "میں جانتا ہوں کہ وہ جوان مرد ہے۔"
(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب رضاعۃ الکبیر، رقم 3600 دارالسلام)
گویا کہ اگر ابوحذیفہ اس بات پر کراہت کھاتے ہیں کہ قرآن کی آیت اترنے کے بعد بھی منہ بولے بیٹے کی حیثیت سے سالم کیوں ان کے گھر میں آتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں، سہلہ کو چاہئے کہ سالم کو اپنا دودھ پلا دیں اور یوں وہ ان کا رضاعی بیٹا بن جائے گا۔
اگلی روایت میں موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سالم کو دودھ پلا دوکہ تم اس پر حرام ہو جاؤ گی اور وہ کراہت جو ابوحذیفہ کے دل میں ہے جاتی رہے۔" پھر وہ لوٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ "مَیں نے اس کو دودھ پلا دیا اور ابوحذیفہ کی کراہت جاتی رہی۔"
(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب رضاعۃ الکبیر، رقم 3601 رقم دارالسلام) 
ایک اور روایت میں موجود ہے کہ سہلہ کی جانب سے اس جوان مرد سالم کو پانچ دفعہ دودھ پلایا گیا۔ 
(سنن ابو داؤد، کتاب النکاح، باب من حرم بہ، رقم 2061) 
اسی واقعہ کو بنیاد بنا کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ،جس کسی کے بارے میں یہ چاہتیں کہ وہ ان کو دیکھ سکے اور ان کے سامنے آ سکے تو اپنی بھتیجیوں یا بھانجیوں میں سے کسی کو حکم دیتی تھیں کہ اس کو اپنا دودھ پانچ رضعے (پانچ دفعہ) پلا دو، چاہے وہ بڑی عمر کا بھی ہوتا۔ 
دیکھئے سنن ابوداؤد (کتاب النکاح، باب من حرم بہ، رقم 2061)
اس سے پتا چلا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ عمل تھا کہ جس سے پردہ نہ کرنا چاہتیں اس کو اپنی بھتیجیوں یا بھانجیوں کا دودھ پلا کر رضاعت قائم کر لیتی تھیں۔ کچھ روایات میں یہ بھی ہے کہ دیگر ازواج مطہرات اس مسئلہ کو تسلیم نہ کرتی تھیں بلکہ سہلہ والے معاملے کو سالم کے ساتھ خاص کہتی تھیں۔ مگر حضرت عائشہ اور ان کی بھانجیوں اور بھتیجیوں کا یہ معمول اس معاملے کو خاص تسلیم کرنے کے خلاف رہا کہ اسے صرف حضرت سہلہ یا سالم کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔
اس بارے میں مزید اور دیگر روایات درج ذیل کتبِ احادیث میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں:
سنن النسائی (3321)، سنن ابن ماجہ (1943)، ، مسند احمد (6/ 255، 271)، سنن الدارمی (2303) 
واللہ اعلم
(شعیب محمد)