کیا ڈالر اور پاؤنڈ بھی اپنی قدر کھوتے ہیں؟
ایک پچھلی تحریر کے کمنٹ میں لکھا تھا: "ڈالر یا پاؤنڈ بھی وقت کے ساتھ ڈی ویلیو ہوتے ہیں، لیکن ہمیں اس کا احساس اس لیے نہیں ہوتا کہ پاکستانی روپیہ ان کے مقابلے میں زیادہ ڈی ویلیو ہو رہا ہوتا ہے، اس لیے ہمیں ڈالر یا پاؤنڈ کی قدر میں اضافہ محسوس ہوتا ہے۔"
اس پر ایک دوست نے سوال کیا کہ "پلیز یہ ایکسپلین کر دیں کہ پاونڈ یا ڈالر کیسے ڈی گریڈ ھوتے ھیں۔میرا تعلق پاونڈ کے ساتھ تقریبا پچیس چھبیس سال سے ھے۔مجھے تو ایسا نہیں لگا۔"
فیاٹ کرنسی (ڈالر، پاونڈ، یورو یا روپیہ وغیرہ) کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سپلائی حکومتوں یا ریاستی اداروں کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ معیشت اور منڈی کا ایک بنیادی اصول ہے کہ جس چیز کی سپلائی زیادہ ہو گی، اس کی قدر اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔
پاکستان سمیت ہر ملک، چاہے وہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو، ہر سال اپنی کرنسی چھاپتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کرنسیوں کی قدر میں مسلسل کمی آتی ہے اور مہنگائی بڑھتی ہے کیونکہ پیداواری صلاحیت محدود ہوتی ہے، مگر کرنسی بے دریغ چھاپی جا رہی ہے۔
ذیل میں دنیا کی بہترین سمجھی جانے والی دو کرنسیز، برٹش پاؤنڈ اور یو ایس ڈالر، کے چارٹ ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ان کرنسیوں کی سرکولیشن ہر سال ریاستی اداروں کے تحت بڑھائی گئی ہے۔


اب سوال یہ ہے کہ ڈالر یا پاؤنڈ کی قدر میں کمی ہمیں کیوں نظر نہیں آتی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اکثر دو گرنے والی چیزوں کا موازنہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے ایک قدرے زیادہ گر رہی ہوتی ہے تو دوسری ہمیں اوپر جاتی محسوس ہوتی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمام فیاٹ کرنسیز اپنی قدر کھو رہی ہوتی ہیں۔
اس کو جانچنے کے لیے آپ کسی بھی کموڈیٹی یا جنس کے مقابل ان کا موازنہ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی کرنسی نے کسی جنس کے مقابل کتنی قدر کھوئی ہے۔
مثال کے طور پر، آج سے صرف 24 سال پہلے، جنوری 2000 میں، 288 ڈالر کا ایک اونس سونا خریدا جا سکتا تھا، لیکن آج یہی ایک اونس سونا تقریباً 2500 ڈالر کا مل رہا ہے۔ گویا ڈالر میں سونے کے اعتبار سے سال 2000 کے مقابلے میں آپ 88 فیصد کم قوت خرید کے قابل ہیں۔
اسی طرح، جنوری 2000 میں ایک اونس سونا صرف 173 پاؤنڈز کا خریدا جا سکتا تھا، لیکن آج یہی ایک اونس سونا تقریباً 1900 پاؤنڈز کے لگ بھگ کا ملتا ہے۔ گویا پاؤنڈ میں سونے کے اعتبار سے سال 2000 کے مقابلے میں آپ 91 فیصد کم قوت خرید کے قابل ہیں۔
گویا اگر کوئی شخص سیونگ کے طور پر ڈالر یا پاؤنڈز جمع کرتا رہا ہے، تب بھی وہ وقت کے ساتھ قوتِ خرید میں شدید نقصان اور گھاٹے کا شکار ہوا ہے۔
یہاں ممکن ہے کہ کوئی سمجھے کہ آبادی بڑھنے کی وجہ سے سونے کی طلب میں اضافہ ہوا، اس لیے اس کی قیمت بڑھی ہے، اور بالکل، یہ بھی ایک وجہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آبادی بڑھنے کی وجہ سے کرنسی کی طلب میں بھی تو اضافہ ہوا، پھر اس کی قیمت کیوں مسلسل گری ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ریاستی ادارے پیداواری صلاحیت اور ضرورت سے زائد کرنسی مسلسل چھاپتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ باقی سب چیزوں کے مقابلے میں اپنی قدر کھو رہی ہیں۔
اوپر دئیے گئے چارٹس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے مضبوط سمجھے جانے والے ممالک بھی پچھلی کئی دہائیوں کے برابر اپنی کرنسی صرف چند سالوں میں، بالخصوص کورونا کے بعد، پرنٹ کر چکے ہیں، اور یہ سلسلہ رکنے والا نظر نہیں آتا۔
نوٹ:
1) یہ سب لکھنے کا مقصد ہرگز فیاٹ کرنسی کے دیگر افادات سے انکار نہیں ہے۔ لین دین اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے یہ آج بھی سب سے آسان ذریعہ ہے، لیکن سیونگ اور تحفظِ قدر کے اعتبار سے یہ ہرگز قابلِ بھروسہ نہیں، پھر چاہے وہ ڈالر یا پاؤنڈ ہی کیوں نہ ہوں۔
2) تحریر کو سادگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اصل میں کرنسی کی قدر اور اجناس کی قیمتوں میں تبدیلیاں مزید پیچیدہ معاشی عوامل کے زیر اثر ہوتی ہیں۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ پڑھنے والوں کو ایک زیادہ متوازن اور سمجھ بوجھ پر مبنی نقطہ نظر فراہم کیا جا سکے۔
(شعیب محمد)