نبی ﷺ کے بعد کعبہ کی تعمیرِ نو
مشہور امام و تابعی حضرت عطاء سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:
(مکہ پر حملہ اور کعبہ کا جل جانا)
" یزید بن معاویہ کے دور میں جب اہلِ شام نے (مکہ پر) حملہ کیا اور کعبہ جل گیا تو اس کی حالت جو تھی سو تھی،حضرت ابن زبیر نے اسے (اسی حالت پر) رہنے دیا حتیٰ کہ حج کے موسم میں لوگ (مکہ) آنے لگے، وہ چاہتے تھے کہ انہیں ہمت دلائیں یا اہل شام کے خلاف جنگ پر ابھاریں۔ جب لوگ آئے تو انہوں نے کہا: اے لوگو! مجھے مشورہ دو کہ میں اسے گرا کر (از سر نو) اس کی عمارت بنا دوں یا اس کا جو حصہ بوسیدہ ہو چکا ہے صرف اس کی مرمت کروا دوں؟
(حضرت ابن عباس کی رائے)
حضرت ابن عباس نے کہا: میرے سامنے ایک رائے واضح ہوئی ہے، میری رائے یہ ہے کہ اس کا جو حصہ کمزور ہو گیا ہے آپ اس کی مرمت کروا دیں اور بیت اللہ کو (اسی طرح باقی) رہنے دیں جس پر لوگ اسلام لائے اور ان پتھروں کو (باقی چھوڑ دیں) جن پر لوگ اسلام لائے اور جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔
(حضرت ابن زبیر کی رائے)
اس پرحضرت ابن زبیر نے کہا: اگر تم میں سے کسی کا اپنا گھر جل جائے تو وہ اس وقت تک راضی نہیں ہوتا جب تک کہ اسے نیا (نہ) بنا لے تو تمھارے رب کے گھر کا کیا ہو؟ میں تین دن تک اپنے رب سے استخارہ کروں گا، پھر اپنے کام کا پختہ عزم کروں گا۔
(کعبہ کا مکمل انہدام اور نئی تعمیر)
جب تین دن گزر گئے تو انہوں نے اپنی رائے پختہ کر لی کہ اسے گرا دیں تو لوگ (اس ڈر سے) اس سے بچنے لگے کہ جو شخص اس پر سب سے پہلے چڑھے گا اس پر آسمان سے کوئی آفت نازل ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ ایک آدمی اس پر چڑھا اور اس سے ایک پتھر گرا دیا، جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے کچھ نہیں ہوا تو لوگ ایک دوسرے کے پیچھے (اسے گرانے لگے) حتیٰ کہ زمین تک پہنچا دیا۔حضرت ابن زبیر نے چند ستون بنائے اور پردے ان پر لٹکا دیے یہاں تک کہ اس کی عمارت بلند ہو گئی۔
(کعبہ کے بارے نبی ﷺ کی خواہش)
حضرت ابن زبیر نے کہا: مَیں نے حضرت عائشہ کو یہ کہتے سنا کہ بلاشبہ رسولﷺ نے فرمایا: "اگر لوگوں کے کفر کا زمانہ قریب نہ ہوتا اور میرے پاس اتنا مال بھی نہیں جو اس کی تعمیر میں میرا معاون ہو تو مَیں حطیم سے پانچ ہاتھ (زمین) اس میں ضرور شامل کرتا اور اس کا ایک (ایسا) دروازہ بناتا جس سے لوگ اندر داخل ہوتے اور ایک دروازہ (ایسا بناتا) جس سے باہر نکلتے۔"
(کعبہ کی عمارت اور اونچائی میں اضافہ)
(حضرت ابن زبیر نے) کہا: آج میرے پاس اتنا مال ہے جو مَیں خرچ کر سکتا ہوں اور مجھے لوگوں کا خوف بھی نہیں۔ (عطاء نے) کہا: تو انہوں نے حطیم سے پانچ ہاتھ اس میں شامل کئے۔ (کھدائی کی) حتیٰ کہ انہوں نے (ابراہیمی) بنیاد کو ظاہر کر دیا، لوگوں نے بھی اسے دیکھا۔ اس کے بعد انہوں نے اس پر عمارت بنائی، کعبہ کا طول (اونچائی) اٹھارہ ہاتھ تھی جب انہوں نے (حطیم کی طرف سے) اس میں اضافہ کیا تو (پھر) انہیں (پہلی اونچائی) کم محسوس ہوئی، چنانچہ انہوں نے اس کی اونچائی میں دس ہاتھ کا اضافہ کر دیا اور اس کے دو دروازے بنائے، ایک میں سے اندر داخلہ ہوتا تھا اور دوسرے سے باہر نکلا جاتا تھا۔
(دوبارہ کعبہ کا گرایا جانا اور پرانی بنیاد پر تعمیر)
جب (عبدالملک بن مروان کے دور میں حجاج بن یوسف کے ہاتھوں) حضرت ابن زبیر قتل کر دیے گئے تو حجاج نے عبدالملک بن مروان کو اطلاع دیتے ہوئے خط لکھا اور اسے خبر دی کہ ابن زبیر نے اس کی تعمیر اس (ابراہیمی) بنیادوں پر استوار کی جسے اہل مکہ کے معتبر لوگوں نے (خود) دیکھا۔ عبدالملک بن مروان نے اسے لکھا: ہمارا ابن زبیر کے رد و بدل سے کوئی تعلق نہیں، البتہ انہوں نے اس کی اونچائی میں جو اضافہ کیا ہے اسے برقرار رہنے دو اور جو انہوں نے حطیم کی طرف سے اس میں اضافہ کیا ہے، اسے (ختم کر کے) اس کی سابقہ بنیاد پر لوٹا دو اور اس دروازے کو بند کر دو جو انہوں نے کھولا ہے۔ چنانچہ اس (حجاج بن یوسف) نے اسے گرا دیا اور اس کی (پچھلی) بنیاد پر لوٹا دیا۔"
(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب نقض الکعبۃ و بنائھا، رقم 1333، دارالسلام3245)