خاوند کا بیوی پہ حق
حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
"خاوند کا بیوی پہ حق یہ ہے کہ اس کو پھوڑا ہو تو اس کو زبان سے صاف کرنا پڑے تو کر دے۔ اگر اس کی ناک سے پیپ بہتی ہو یا خون بہتا ہو تو اس کو زبان سے بھی صاف کرنا پڑے تو دریغ نہ کرے، چاہے اس کے حلق میں اتر جائے (اور) تب بھی خاوند کا پورا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔"
(مجمع الزوائد، رقم 7639 / كشف الأستار، رقم 1465 / جمع الفوائد، رقم 4310 واللفظ له / سنن الدارقطني، رقم 3571 / مصنف ابن أبي شيبة، رقم 17122 / السنن الكبرى للنسائي، رقم 5365 / السنن الكبرى للبيهقي، رقم 14707)
٭ امام ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح ابن حبان، ج1 ص438)
٭  امام ہیثمی نے اس روایت کے رواۃ کو صحیح اور ثقہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ورجاله رجال الصحيح خلا نهار العبدي، وهو ثقة
 (مجمع الزوائد، ج4 ص307)
٭ امام حاکم نے اس روایت کے بارے لکھا: هذا حديث صحيح الإسناد (المستدرك، ج2 ص205)
٭ امام منذری نے اس روایت پہ لکھا ہے: رواه البزار بإسناد جيد رواته ثقات مشهورون، وابن حبان في "صحيحه" 
(الترغيب والترهيب، ج3 ص35)
٭ مشہور محقق و محدث علامہ البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ 
(صحيح الجامع الصغير، رقم 3148 / صحيح الترغيب والترهيب، رقم 1934 / صحيح موارد الظمآن، ج1 ص1075)
٭ معروف محقق شیخ شعیب الأرنؤوط نے کہا: إسناده حسن (الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان، ج9 ص472 رقم 4164)
٭محقق شیخ حسين سلیم اسد نے بھی اس روایت کو "إسناده صحيح" کہا ہے۔ (موارد الظمآن، ج4 ص222)
٭ سعودی محقق شیخ سعد بن ناصر الشثري نے حسن قرار دیا۔ (مصنف ابن أبي شيبة، ج9 ص465)
٭ دور حاضر کے اہل حدیث عالم و محقق کفایت اللہ السنابلی اس حدیث کے بارے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
"اس کی سند حسن ہے اور حدیث صحیح ہے۔۔۔۔"
اس حدیث کے مختلف طرق پہ تفصیلی بحث کے بعد لکھتے ہیں:
"اس حدیث کے مجموعی طرق بغیر کسی شک کے صحیح ثابت ہیں۔۔۔۔ اور اسے آئمہ و اہل علم کی ایک جماعت نے صحیح اور حسن قرار دے رکھا ہے، جن میں حاکم، ابن حبان، ضیاء، منذری اور ابن کثیر شامل ہیں جبکہ معاصرین (محققین اہل علم) میں سے علامہ البانی، شعيب الأرنؤوط، حسین سلیم اسد، عمرو عبدالمنعم سليم اور حمزه أحمد الزين وغیرہ ہیں۔"
نیز لکھتے ہیں: "اس حدیث کو کئی علماء و آئمہ نے نہ صرف اپنی کتب میں درج کیا ہے بلکہ اس سے استدلال بھی کیا ہے جیسا کہ ابن الجوزي (احكام النساء، ص211)، وابن كثير (البداية والنهاية، 9/ 6) اور ابن القيم (إعلام الموقعين، 4/ 247) وغيرہ نے۔"
٭ "شیخ الاسلام" امام ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کو اپنے فتاویٰ میں بطور حجت و استدلال پیش کر رکھا ہے۔ 
دیکھئے مجموع الفتاوى (ج32 ص262)
واللہ اعلم