یہودیوں کی عرب سے جلاوطنی
مسلمانوں کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد یہودیوں کو وہاں سے اور پھر پورے عرب سے بتدریج نکالا گیا، جلا وطن کیا گیا. یہ سلسلہ غزوہ بدر کے فوری بعد شروع ہو گیا تھا۔چنانچہ ابن عباس سے روایت ہے کہ بدر کے موقع پر جب رسول اللہﷺ قریش پر غالب آ گئے اور فتح کے بعد مدینہ پہنچے تو یہودیوں کو بنو قینقاع کے بازار میں جمع کیا اور فرمایا:
 "اے جماعت یہود! اسلام قبول کر لو، قبل اس کے کہ تمھیں انہی حالات سے دوچار ہونا پڑے جن سے قریشی دوچار ہوئے۔"
(سنن ابو داؤد،رقم 3001)
اسی طرح یہودیوں کو بارہا کہا گیا کہ "اے جماعت یہود! اسلام قبول کر لو، امن میں رہو گے۔" جب ان کی طرف سے اس بات کو قبول نہ کیا گیا تو فرمایا: "یاد رکھو! زمین اللہ کی ہے اور اس کے رسول کی اور میں تمھیں عنقریب اس زمین سے جلاوطن کرنے والا ہوں۔ جسے اپنے مال میں سے کچھ ملتا ہے تو وہ اسے بیچ لے، ورنہ یاد رکھو! زمین اللہ کی ہے اور اس کے رسول کی ہے۔"
(صحیح بخاری، رقم 3167 / صحیح مسلم، رقم 1765، دارالسلام 4591 / سنن ابوداؤد، رقم 3003)
ان روایات سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کا قصور کیا تھا اور انہیں جلاوطن کیوں کیا گیا؟ چنانچہ اسی کے مطابق "آپ نے مدینہ طیبہ کے تمام یہود یعنی بنو قینقاع جو حضرت عبداللہ بن سلام کی قوم سے تھے اور یہود بنو حارثہ کو وہاں سے نکال دیا۔ الغرض آپ نے مدینہ طیبہ کے تمام یہودیوں کو مدینہ طیبہ سے جلا وطن کر دیا۔" (صحیح بخاری،رقم 4028)
بنو نضیر کے بارے حضرت عائشہ کی حدیث ہے کہ "بنی نضیر یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا، غزوہ بنی نضیر جنگ بدر کے چھ ماہ بعد رونما ہوا تھا۔ ان لوگوں کے مکانات و باغات مدینہ کے جوار میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کا محاصرہ کر لیا اور یہ شرط رکھی کہ ان کو جلا وطن کیا جائے اور ہتھیاروں کے علاوہ تمام سامان اور مال جو اونٹ اٹھا سکیں وہ ان کے ہیں۔۔۔۔ نبی ﷺنے ان سے جنگ کی حتیٰ کہ جلا وطنی کی شرط پر جنگ بندی ہوئی۔ ان کو شام کی طرف جلا وطن کر دیا۔۔۔۔" (مستدرک حاکم: رقم 3797)
اسی طرح خیبر کے بارے میں حضرت انس کی روایات ہیں کہ "خیبر کو ہم نے بزور قوت حاصل کیا۔" 
(صحیح مسلم، رقم 1365، دارالسلام 3497) 
مزید فرمایا: "ہم ان تک پہنچے تو سورج چمکنے لگا تھا۔ وہ اپنے جانوروں کو (چرنے کے لئے) باہر نکال چکے تھے اور خود بھی اپنے پھاؤڑے، ٹوکرے اور بیلچے لے کر نکل چکے تھے (یعنی اپنے کام کاج کے لئے لیکن جب انہوں نے لشکر دیکھا تو) کہنے لگے: محمد ہیں اور لشکر ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "خیبر اجڑ گیا! بلاشبہ جب ہم کسی قوم کے گھروں کے سامنے اترتے ہیں تو جن لوگوں کو ڈرایا گیا تھا ان کی صبح بہت بُری ہوتی ہے۔"
(صحیح مسلم، رقم 1365، دارالسلام 3497)
بنو قریظہ کے لئے بھی حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ "نبی ﷺبنو قریظہ کی طرف تشریف لائے اور 25 دنوں تک ان کا محاصرہ کیا، جب ان کا محاصرہ شدید ہو گیا اور ان پر آزمائش شدید ہو گئی تو ان سے کہا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ثالث مان لو۔ ان لوگوں نے حضرت ابولبابہ سے مشورہ کیا تو انہوں نے انہیں اشارہ سے بتایا کہ انہیں ذبح (کرتے ہوئے قتل) کر دیا جائے گا تو انہوں نے کہا ہم حضرت معاذ کو ثالث تسلیم کرتے ہیں۔"
(صحیح ابن حبان بمطابق ترتیب الاحسان، رقم 7028 / مسند احمد، رقم 25610)
حضرت عائشہ سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ "جبریل آئے، وہ اپنے سر سے گردوغبار جھاڑ رہے تھے، انہوں نے کہا: آپ نے اسلحہ اتار دیا ہے؟ اللہ کی قسم! ہم نے نہیں اتارا، ان کی طرف نکلئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہاں؟ انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر اتر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فیصلہ حضرت سعد کے سپرد کر دیا، انہوں نے کہا: "میں ان کے بارے میں فیصلہ کرتا ہوں کہ جنگجو افراد کو قتل کر دیا جائے اور یہ کہ بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے اموال تقسیم کر دیے جائیں۔" (صحیح مسلم، حدیث 1769، دارالسلام 4598)
 یہاں پر یہ بھی بات قابل ذکر ہے کہ حضرت معاذ بنو قریظہ والے اس معاملے سے بہت پہلے سے یہ دعا کرتے تھے کہ "اے اللہ! میری جان اس وقت تک نہ نکالنا جب تک بنو قریظہ کے حوالے سے میری آنکھیں ٹھنڈی نہ ہو جائیں۔"
 (سنن ترمذی، رقم 1582 / صحیح ابن حبان بمطابق ترتیب الاحسان، رقم 7028) 
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی حضرت سعد کے فیصلہ پر کہا: "تم نے اللہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔" (صحیح مسلم، رقم 1768، دارالسلام 4597) ایک اور روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے ان کے بارے اللہ اور اس کے رسول کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔" (سنن ترمذی، رقم 1582 / صحیح ابن حبان بمطابق ترتیب الاحسان، رقم 7028)
گویا بنو قریظہ کے بارے یہ فیصلہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا توثیق شدہ تھا۔ سنن ترمذی (رقم 1582) کی حسن روایت کے مطابق قتل ہونے والوں کی تعداد چار سو (400) تھی اور ان میں سے چند چھوڑ دیے گئے کیونکہ وہ اسلام لے آئے تھے۔ (صحیح بخاری: رقم 4028)
قتل کرنے یا غلام بنانے کا فیصلہ زیر ناف بال دیکھ کر کیا جاتا۔ چنانچہ روایت کیا گیا ہے کہ "جس لڑکے کو احتلام ہوتا تھا یا اس کے زیر ناف بال اُگے ہوتے تھے، اسے قتل کر دیا جاتا تھا اور جس کو احتلام نہیں ہوتا تھا یا جسے زیر ناف بال نہیں اُگے ہوتے تھے، اسے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ "
(سنن نسائی، رقم 3459، 3460)
حضرت عطیہ قرظی فرماتے ہیں: "مَیں بنو قریظہ کے قیدیوں میں تھا، وہ دیکھتے تھے کہ جس کے زیرِ ناف بال اُگے ہوتے تھے، اسے قتل کر دیتے اور جس کے نہیں اُگے ہوتے تھے، اسے چھوڑ دیتے تھے تو مَیں ان میں تھا، جس کے بال ابھی نہیں اُگے تھے۔"
 (سنن کبریٰ للبیہقی: رقم 11315) 
ایک اور روایت میں ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے میرے کپڑے اتارے تو انہوں نے دیکھاکہ بال ابھی تک مونڈے نہیں گئے تھے، اس لئے انہوں نے مجھے قتل نہ کیا۔" (سنن کبریٰ للبیہقی: رقم 11318)
لہٰذا جن لڑکوں کو ابھی زیرِناف بال ہی آئے تھے انہیں بھی قتل کیا گیا۔ یہ روایات ان کے لئے بہت بڑا سوال ہیں جو بنو قریظہ کے ساتھ ہونے والے سلوک کو ان کی کسی بد عہدی یا سازش کا بدلہ بتاتے ہیں کیونکہ پھر یہ سازش زیر ناف بال دیکھ کر ثابت نہیں ہو سکتی تھی کہ فلاں کے بال اُگے ہیں تو اس نے سازش کی ہے، اور فلاں کے بال نہیں اُگے تو اس نے سازش نہیں کی۔ نیز کسی سازش کے الزام کو پورے قبیلے کا ایسا قصور بتانا کہ سب قتل کئے جائیں یا غلام لونڈیاں بنا لئے جائیں، کافی محلِ نظر ہے۔ واللہ اعلم
یہود کے صرف تین قبائل ہی نہیں بلکہ بعد میں تو عمومی طور پر بھی یہود اور ان کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کو بھی جزیرہ عرب سے نکال دینے کے عزم کا اظہار بھی رسول کریم ﷺ نے کیا۔ چنانچہ فرمایا:
"مَیں یہود و نصاریٰ کو ہر صورت جزیرۃ عرب سے نکال دوں گا۔ یہاں تک کہ مَیں مسلمانوں کے سوا کسی اور کو رہنے نہیں دوں گا۔"
(صحیح مسلم ،رقم 1767، دارالسلام 4594 / سنن ابوداؤد:،رقم 3030)
اسی طرح خیبر کی فتح کے بعد جن یہودیوں کو رہنے کی اجازت دی گئی وہ اس شرط پر تھی کہ ایک تو جب چاہے انہیں نکال دیا جائے، دوسرا وہ اپنی ہی آبائی زمینوں پر جو محنت کر کے کمائیں گے اس کا آدھا حصہ ادا کریں گے۔ دیکھئے سنن ابو داؤد (رقم 3008)
حضرت عمر نے اپنے دور میں انہیں بھی عرب سے نکال باہر کیا۔ تفصیل کے لئے دیکھئے سنن ابو داؤد (حدیث 3007)
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ "حضرت عمر نے لیکن مقامی آباد یہود کو بے دخل نہیں کیا۔" یہ بھی بالکل حقائق کے منافی بات ہے کیونکہ امام ابو داؤد نے امام مالک نے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ "حضرت عمر نے اہل نجران کو جلا وطن کر دیا لیکن وہ تیماء سے نہیں نکالے گئے کیونکہ یہ عرب کی حدود میں نہیں ہے۔" (سنن ابو داؤد: رقم 3034)
اسی طرح ایک اور روایت میں بھی واضح بیان ہوا ہے کہ "حضرت عمر نے نجران اور فدک کے یہود کو جلا وطن کیا تھا۔" 
(سنن ابو داؤد: رقم 3034)
(شعیب محمد)