پار چنا دے (چناب کے پار)
سوہنی مہیوال کی لازوال عشق و محبت کی داستان مشہور ترین لوک داستانوں میں سے ایک ہے۔ کوک اسٹوڈیو نے اس داستان عشق کو اپنی ایک پیشکش میں کمال تک پہنچا دیا ہے۔ گانے کے پنجابی بول، موسیقی، گانے والے، ساز ہر ایک چیز اس طرح اس گانے میں جڑی ہے جیسا کسی ہار میں موتی اور نگینے۔ نوری بینڈ اور شلپا راؤ نے جادو کر رکھا ہے، جس سے سننے والا مسحور ہوئے بنا نہیں رہ پاتا۔
گانے کے بول استعاراتی و اشاراتی پیرائے میں جس جذب اور محبت کی شدت کا اظہار ہیں، بلاشبہ دل کو بھگو کر رکھ دیتے ہیں۔ گانے کے پنجابی بول استعارے کی چاشنی میں ڈوبا ہوا سوہنی اور اس گھڑے کے بیچ مکالمہ ہے جس پر وہ دریا پار کرنا چاہتی ہے تاکہ اپنے محبوب مہیوال سے مل سکے۔ سنئے، پڑھئے اور لطف لیجئے۔
پار چناں دے دسّے کُلّی یار دی
گھڑیا، گھڑیا، آ وے گھڑیا
سوہنی: چناب کے پار میرے محبوب کی کٹیا (جھونپڑی) دکھائی دے رہی ہے، گھڑے او گھڑے! آؤ چلتے ہیں۔
رات ہنیری ندی ٹھاٹھاں ماردی
اڑئیے، اڑئیے، ہاں نی اڑئیے
گھڑا: رات شدید اندھیری ہے اور دریا کا پانی ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ نادان لڑکی! او نادان لڑکی! تمھیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتا؟
پار چناں دے دِسّے کُلّی یار دی
گھڑیا، گھڑیا، آ وے گھڑیا
سوہنی: مجھے تو بس یہ نظر آتا ہے کہ میرے محبوب کی کٹیا (جھونپڑی) دریا کے پار ہے۔ گھڑے او گھڑے! آؤ چلتے ہیں۔
کچّی میری مٹّی کچّا میرا نام نی
ہاں میں ناکام نی
کچّیاں دا ہندا کچّا انجام نی
ایہہ گل عام نی
کچّیاں تے رکھئیے نہ امید پار دی
گھڑا: میری مٹی کچی ہے، مجھے تو کہا ہی کچا گھڑا جاتا ہے۔ خود کسی کام کا نہیں اور جو خود کچا ہو اس کا اپنا انجام کیسے اچھا ہو سکتا ہے؟ یہ تو ایک عام فہم بات ہے۔ اس لئے منزل مقصود پر پہنچانے کے لئے کسی کچے پر امید نہیں رکھنی چاہئے۔
ویکھ چھلّاں پیندیاں، نہ چھڈّیں دل وے
اَجّ مہینوال نوں مَیں جانا مِل وے
ہاں لے کے ٹھل وے
اَجّ مہینوال نوں مَیں جانا مِل وے
ہاں ایہو دِل وے
یار نوں ملے گی اَجّ لاش یار دی
سوہنی: دیکھو! لہریں بہت تیز ہیں لیکن تم اپنا دل نہ ہارنا۔ مجھے اپنے محبوب مہیوال سے ملنے آج ضرور جانا ہے، سو مجھے لے کر تیرتے رہو۔ مہیوال کو ملنے آج جانا ہے، میرا بس یہی دل ہے۔ آج ملاقات ہو گی ضرور ہو گی، چاہے میرے محبوب کو میری لاش ہی ملے۔
(اردو ترجمانی: شعیب محمد)

Sohni Swims to Meet Her Lover Mahinwal
Painting: Faqir Ullah Khan 
(India, Uttar Pradesh, Lucknow or Farrukhabad, circa 1780)