قاری حنیف ڈار اور سورۃ طلاق کی آیت چار
سورۃ طلاق کی چوتھی آیت میں ایسی خواتین کی عدت بیان ہوئی ہے جنہیں حیض نہیں آیا۔ سورۃ طلاق کی اس آیت میں 'لم یحضن' کی تشریح میں چودہ صدیوں میں ہر دور کے آئمہ مفسرین و علماء کا یہی مئوقف رہا ہے کہ اس سے مراد وہ نابالغ اور چھوٹی بچیاں ہیں جنہیں ابھی حیض نہیں آیا اور ان کی مدت عدت قرآن نے تین مہینے مقرر کی ہے۔ اس آیت کی اس تشریح میں تابعین اور امام طبری سے لے کر موجودہ دور میں مولانا مودودی حتیٰ کہ مولانا امین اصلاحی تک کوئی ایک مفسر میرے علم میں نہیں جس نے اس آیت میں نابالغ بچی کی عدت کا انکار کیا ہو۔ تفصیل کے لئے یہ مضمون ملاحظہ فرمائیں: اسلام میں شادی کی کم سے کم عمر
قاری حنیف ڈار صاحب نے چودہ سو سال کے ان تمام آئمہ و علماء پہ برستے ہوئے لکھا:
"چھ سال یا نو سال کی بچی کو عورت دنیا کی کسی زبان میں عورت نہیں کہا جاتا ، کسی معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا کہ راہ چلتی چھ سالہ بچی کے بارے میں کوئی پوچھے کہ یہ کس کی عورت ہے؟ یا یہ عورت کون ہے ۔؟ جس سے پوچھا جائے گا وہ لازم تعجب سے پوچھے گا کہ کونسی عورت میاں ؟ یہاں تو اس بچی کے سوا کوئی بھی نہیں ۔ اور یہ ظالم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ چھ سالہ بچی کو عورت کہہ کر اس کی عدت مقرر فرما رہا ہے۔"
عرض ہے کہ قاری حنیف ڈار اور ان جیسے تجدد پسند افراد کا عمومی رویہ ہے کہ وہ محض لفظوں سے کھیلتے ہوئے بیک جنبش اسلام کی پوری چودہ سو سالہ علمی میراث و تاریخ کا انکار کر دیتے ہیں۔ گویا ان کے سوا کسی کو قرآن سمجھ آیا نہ عربی محاورہ و زبان کا حقیقی مفہوم کسی اور پہ واضح ہوا جبکہ خود ان کا مئوقف قرآن کی براہ راست آیات کے خلاف ہوتا ہے۔
چنانچہ قرآن کا اسلوب ہے کہ جہاں عمومی طور پر ذکر کرنا ہو وہاں مئونث کے لئے نساء (عورتوں) کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے، چاہے اس سے مراد چھوٹی بچیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ مثال کے طور پر:
وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ ﴿البقرۃ: 49﴾
"اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی وہ تمہیں بری طرح عذاب دیا کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔"
یعنی فرعونی پیدا ہونے والے بیٹے ہوتے تو انہیں قتل کر دیتے تھے اور اگر بیٹی ہوتی تو اسے زندہ رہنے دیتے۔ یہاں قرآن نے پیدا ہونے والی بیٹیوں کے لئے نساء کا لفظ استعمال کیا ہے۔
قرآن کا یہ اسلوب بہت واضح ہے کہ جب عمومی طور پر ذکر کرنا ہو تو مذکر کے لئے الرجال (مرد) اور مئونث کے لئے النسا (عورت) کے الفاظ استعمال کرتا ہے اور اس میں چھوٹے بچے اور بچیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ چنانچہ سورۃ النساء کی پہلی ہی آیت دیکھئے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ﴿1﴾
"اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو بے شک الله تم پر نگرانی کر رہا ہے۔"
کیا یہاں قرآن کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف بالغ مرد اور بالغ عورتیں پیدا کی اور پھیلائی ہیں؟ یا یہاں مرد و عورت سے مراد صرف جنس کا تعین ہے۔
مزید ایک اور آیت دیکھئے کہ جہاں قرآن نے وراثتی حصے مقرر کئے وہاں فرمایا:
وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ۔ ﴿176﴾
"اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دوہرا حصہ ہوگا۔"
اب جن حضرات کے نزدیک مرد (رجال) سے مراد صرف بالغ مرد اور عورت (نساء) سے مراد صرف بالغ عورت ہی ہو سکتی ہے تو انہیں چاہئے کہ یہ فتویٰ بھی دے دیں کہ مرنے والے کے حصہ میں صرف وہ بچے حصہ دار ہوں گے جو بالغ ہوں۔ جو نابالغ ہوں ان کا کوئی حصہ نہیں ہو گا کیونکہ قرآن نے تو صرف بالغ مرد و عورت کی بات کی ہے۔
سیدھی سی بات ہے کہ قرآن جہاں عمومی طور پر ذکر کرتا ہے وہاں رجال ہو یا نساء اس سے مراد جنس ہوتی ہے، ایسا ہرگز نہیں کہ نابالغ چھوٹے بچے بچیوں کے لئے کہ یہ لفظ استعمال نہیں ہو سکتے۔ فتدبر
(شعیب محمد)