تنہائی اور ڈرامہ
اتنا عظیم رائیٹر ہونے کے باوجود مجھے کوئی نہ جانتا تھا، ہاں مجھے خود معلوم تھا اور خود مَیں نے ہی طے کر لیا تھا کہ مَیں سب سے عظیم ادیب ہوں۔مَیں جانے کب سے تنہا بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کیا کرنا چاہئے؟
قلم اٹھایا کچھ کردار تراشے، اچھے بُرے، قاتل و جابر، مقتول و رحم دل۔ کوئی مرتا ہے کوئی مارتا ہے، سب اسی طرح جیسا کہ میرا ارادہ ہے اور اسے مَیں نے لکھ دیا ہے۔
سب سے عظیم اور شاہکار ڈرامہ لکھا جا چکا ہے۔ڈرامہ ختم ہوا تو کردار امر ہو چکے ہیں، کچھ مسلسل زلت آمیز اذیتوں میں پڑے ہیں اور کچھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ گویا اس سب کا یہی تو حاصل وصول تھا۔ مگر اب ۔۔۔۔۔
مَیں جانے کب سے تنہا بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کیا کرنا چاہئے؟
نوٹ: مَیں صرف اس کا ذمہ دار ہوں جو مَیں نے خود لکھا ہے، اس کا نہیں جو آپ سمجھیں۔ شکریہ
(شعیب محمد)
تمثیل
منصف ہے
کہانی اس نے لکھی ہے
سبھی کردار اس کے ہیں
کوئی مجرم، کوئی ملزم، کوئی معصوم ہے لیکن
سبھی انداز اس کے ہیں
پس منظر پوشیدہ سہی پھر بھی
سر منظر سبھی غماز اس کے ہیں
ہدایت کار بھی خود ہے
اسی کے ایک اشارے پر
اداکاروں نے کرداروں کو
اتنی جانفشانی سے نبھایا ہے
کہ اک لکھی ہوئی کہانی کو حقیقت کر دکھایا ہے
مگر اس داستان کا آخری منظر قیامت ہے
قیامت ہے کہ
کہانی کا مصنف
آپ منصف بن گیا آخر
کہانی ختم ہونے پر
اپنی اجرت مانگنے والے اداکاروں سے کہتا ہے
میں تم کو تمھارے کرداروں کے کرموں کا صلہ دوں گا
میں منصف ہوں، مگر آپ اپنی رضا سے فیصلہ دوں گا
کہانی ختم ہونے پر
انھیں اذن تکلم تو نہیں لیکن
اداکاروں کو منصف سے بس اتنی شکایت ہے
کہ منصف آپ مصنف تھا
کہانی اس نے لکھی تھی
سبھی کردار اس کے تھے
(سید مبارک شاہ)