پورا قرآن کیا تھا؟
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں:
"لا یقولن احدکم قد اخذت القرآن کلہ وما یدریہ ما کلہ؟ قد ذهب منه قرآن کثیر، ولکن لیقل: قد اخذت منه ما ظہر منه."
"تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے پورا قرآن سیکھ لیا ہے، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ پورا قرآن کیا تھا؟ قرآن کا ایک بڑا حصہ ختم ہو چکا ہے۔ بلکہ اسے یہ کہنا چاہیے کہ میں نے اس قرآن کا وہ حصہ سیکھ لیا ہے جو ظاہر ہے۔"
(سنن سعید بن منصور، ج2 ص432، رقم 140 / فضائل القرآن لأبي عبید، ص 320)
محقق الدكتور سعد بن عبد الله الحميد نے روایت کو "سنده صحيح" قرار دیا ہے۔
بہت سے علماء و شارحین "قرآن کا ایک بڑا حصہ ختم ہو چکا ہے" سے مراد منسوخ آیات لیتے ہیں۔ سوال یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر منسوخ آیات کی وجہ سے یہ کہنا درست نہیں کہ ہم نے مکمل قرآن سیکھ لیا تو انہی منسوخ آیات کی وجہ سے پھر یہ کہنا کیسے درست ہے کہ ہم نے مکمل قرآن محفوظ کر لیا؟
چنانچہ اگر یہ بات سیکھنے کے لئے ایسی ہے تو محفوظ ہونے کے لئے بھی ایسی ہے۔ منسوخ آیات کی تاویل سے بھی حضرت عبداللہ بن عمر کے مطابق تو پھر صرف یہ کہنا چاہیے کہ مَیں نے اس قرآن کا وہ حصہ سیکھ لیا اور محفوظ کیا ہے جو اس میں ظاہر ہے اور یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ہمارے پاس مکمل قرآن موجود ہے کیونکہ کسی کو نہیں پتا کہ مکمل پورا قرآن کیا تھا؟
واللہ اعلم
(شعیب محمد)