تخطي للذهاب إلى المحتوى
افکارنو
  • مرکزی صفحہ
  • مضامین اور تحریریں
    • قرآن
    • حدیث و تاریخ
    • سیرت
    • صحابہ کرام
    • عقیدہ و احکام
    • نقد و نظر
    • مالیات
    • متفرقات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
افکارنو
      • مرکزی صفحہ
      • مضامین اور تحریریں
        • قرآن
        • حدیث و تاریخ
        • سیرت
        • صحابہ کرام
        • عقیدہ و احکام
        • نقد و نظر
        • مالیات
        • متفرقات
      • ہمارے بارے میں
    • رابطہ

    مصحفِ قرآن اور صحابہ کرام

  • كافة المدونات
  • قرآن
  • مصحفِ قرآن اور صحابہ کرام
  • 9 يوليو 2020 بواسطة
    شعیب محمد

    مصحفِ قرآن اور صحابہ کرام 

    رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن کو نازل ہونے کے ساتھ ساتھ متفرق اشیاء جیسے کاغذ، ہڈی، پتھر یا درختوں کے پتے وغیرہ پر لکھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ متفرق صحابہ کرام کے پاس قرآن کے مختلف اجزاء لکھے ہوئے تھے۔

    خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس کے مطابق "اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے مسلسل وحی اتاری اور آپ کی وفات کے قریبی زمانے میں تو بہت وحی نازل ہوئی، پھر اس کے بعد رسول اللہ وفات پا گئے۔"
     (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب کیف نزول الوحی و اول ما نزل، رقم 4982)

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسلسل وحی کا نزول جاری رہا اور آخر زندگی میں بھی بہت وحی نازل ہوئی، جس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور نگرانی میں مصحف قرآن کی کتابی تشکیل و تدوین ممکن نہ ہو سکی۔

    چنانچہ اس سلسلے کی پہلی کوشش حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی جب جنگ یمامہ میں بہت سے قراء شہید ہو گئے اور یہ خوف لاحق ہوا کہ قرآن کریم کا بہت سا حصہ کہیں ان کے ساتھ ہی نہ جاتا رہے۔ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کو اس معاملے کے لئے راضی کیا کیونکہ حضرت ابوبکر کا پہلے خیال یہی تھا کہ "جو کام رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ تم کیسے کرو گے؟" خلیفہ اول حضرت ابوبکر کو منانے کے بعد اس کام کے لئے حضرت زید بن ثابت کا انتخاب کیا گیا کہ جنہیں حضرت ابوبکر نے فرمایا: "تم ایک نوجوان اور عقلمند آدمی ہو۔۔۔ اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی تھے، اس لئے تم قرآن مجید کو پوری جستجو اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دو۔" حضرت زید بن ثابت کو بھی یہی شبہ رہا کہ جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ کیسے کیا جائے؟ مگر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ان کے ساتھ تکرار کرتے رہے حتیٰ کہ حضرت زید فرماتے ہیں: "اللہ نے اس کام کے لئے میرا سینہ کھول دیا، جس کے لئے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا سینہ کھولا تھا۔"
    قرآن مجید کی اس پہلی کتابی تشکیل کے بعد وہ صحیفہ حضرت ابوبکر کے پاس رہا، ان کی وفات کے بعد حضرت عمر نے زندگی بھر پاس رکھا۔ اس کے بعد وہ ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس محفوظ رہا۔اس ساری تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح بخاری (کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، رقم 4986)

    قرآن مجید کی اس کتابی تدوین و تشکیل میں دوسرے کئی صحابہ کرام کا اختلاف بھی رہا۔ بہت سے صحابہ کرام بہت سی ایسی آیات کو قرآن کا حصہ سمجھتے تھے جو حضرت عمر تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے نزدیک وہ منسوخ تھیں جبکہ بہت سی ایسی آیات جو حضرت عمر مانتے تھے، وہ دوسرے صحابہ کرام کے نزدیک قرآن کا حصہ نہیں تھیں۔ اس سلسلے میں ایک تفصیلی مضمون "حضرت عمر، حضرت ابی بن کعب اور قرآن" کے عنوان سے لکھ چکا ہوں، جس میں خصوصی طور پہ حضرت عمر اور حضرت ابی بن کعب کے درمیان قرآن کو لے کر جو اختلافات تھے ان کا تفصیلی جائزہ پیش کیا تھا۔ 

    دوسرے کئی صحابہ کرام کا بھی موجودہ مصحفِ قرآن سے کئی طرح کا اختلاف رہا تھا، اس مضمون میں وہی روایات پیش کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ ہم اس راہ سے آگاہ ہو سکیں، جس کے نتیجہ میں قرآن کریم آج ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ صحابہ کرام کو خود قرآن نے ایمان کا معیار قرار دیا ہے، ایسے میں یہ سمجھنا کہ ہم آج ان سے بہتر ہدایت پر ہیں اور ان نفوسِ قدسیہ کا اختلاف یا مئوقف ہمارے لئے دیکھنا یا سمجھنا ضروری نہیں، بذات خود کافی گمراہانہ تصور ہے۔میری کوشش یہی رہے گی کہ خود سے کوئی حکم پیش نہ کروں بلکہ اس سلسلہ میں صرف صحابہ کرام کا مئوقف سامنے رکھا جائے اور قارئین خود انہی نفوس قدسیہ سے سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں جن سے قرآن یا دین کو بہتر سمجھنے یا بہتر تک پہنچ جانے کا دعویٰ خود کو ہی دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

    ٭ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا

    1) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ " اللہ نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے۔"
    (سنن ابو داود، کتاب النکاح، باب ھل یحرم ما دون خمس رضعات، رقم 2062  / صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس رضاعت، رقم 3597 دارالسلام)
    یاد رہے کہ دس دفعہ یا پانچ دفعہ رضعات سے حرمت سے متعلقہ ایسی کوئی آیت ہمارے موجودہ مصحف قرآن میں موجود نہیں، جو کہ امام المومنین حضرت عائشہ کے مطابق جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تب بھی قرآن میں پڑھی جاتی تھی۔

    2) حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ " آیت رجم اور دس بار دودھ پلانے سے رضاعت کبیر ثابت ہونے پر (قرآن مجید میں) آیات نازل ہوئی تھیں۔ یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے بستر پر پڑی تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہو گئے تو ایک بکری آئی اور اس کاغذ کو کھا گئی۔"
    (سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح، باب رضاع الکبیر، رقم 1944 /  مسند احمد،ج6ص229 / مسند ابی یعلیٰ، رقم 4587، 4588)
    شیخ زبیر علی زئی نے اس روایت کو 'اسنادہ حسن' قرار دیا ہے۔

    3) حضرت عائشہ کے آزاد کردہ غلام ابو یونس سے روایت ہے کہ "حضرت عائشہ نے مجھے حکم دیا کہ ان کے لئے قرآن لکھوں اور فرمایا: جب تم اس آیت پر پہنچو ((حفظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ)) تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں آگاہ کیا، انہوں نے مجھے لکھوایا: ((حفظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ و صلاۃ العصر، وقوموا للہ قانتین))۔ حضرت عائشہ نے فرمایا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی سنا۔"
    (صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب الدلیل لمن قال: الصلاۃ الوسطیٰ ھی صلاۃ العصر، رقم 1427 دارالسلام)
    ہمارے پاس موجود مصاحف میں یہ سورۃ بقرۃ کی 238 نمبر آیت ہے اور حضرت عائشہ کے تاکید کے ساتھ لکھوائے ہوئے الفاظ ((وصلاۃ العصر)) کے بغیر ہے۔ حضرت عائشہ نے جو نسخہ قرآن اپنے لئے لکھوایا اس میں ان الفاظ کا اضافہ کروایا اور یہ بھی گواہی دی کہ انہوں نے اس آیت کو ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا اور وہ ان الفاظ کو بھی قرآن کا حصہ مانتی تھیں۔
    کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے ان الفاظ کا اضافہ بطور تفسیر لکھوایا تھا حالانکہ روایت سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے ان الفاظ کو قرآن کی آیت کے درمیان میں باقاعدہ حصہ بنایا تھا۔ دوسرا یہ بات کچھ دوسرے صحابہ سے بھی ثابت ہے کہ یہ آیت ایسے ہی مکمل ان الفاظ کے ساتھ ہی نازل ہوئی تھی۔
    چنانچہ صحابی رسول حضرت براء بن عازب سے بھی موجود ہے کہ یہ آیت ((حفظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ و صلاۃ العصر)) کے الفاظ سے نازل ہوئی تھی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اسی طرح پڑھی جاتی تھی لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے ((و صلاۃ العصر)) کے الفاظ کے بغیر یہ آیت نازل کی اور ان الفاظ کو منسوخ کر دیا۔
    (مستدرک حاکم، رقم 3112، امام ذہبی نے اسے امام مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔)
    گویا یہ آیت ان الفاظ کے ساتھ ہی نازل ہوئی تھی اور ایسے ہی تلاوت بھی ہوتی تھی لیکن حضرت براء ابن عازب کے نزدیک یہ الفاظ بعد میں منسوخ کر دئے گئے تھے جبکہ اوپر والی روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ انہیں ہرگز منسوخ نہیں سمجھتی تھیں بلکہ بعد میں بھی مستقل قرآن کا حصہ مانتی اور اپنے مصحفِ قرآن میں لکھواتی تھیں۔

    4)  حضرت عائشہ کے بھانجے عروہ سے مروی ہے کہ  انہوں نے حضرت عائشہ سے قرآن کے (مندرجہ ذیل) لحن کے بارے پوچھا:
    {إن هذان لساحران} (سورة طه: 63)
    {والمقيمين الصلاة والمؤتون الزكاة} (سورة النساء: 162)
    {والذين هادوا والصابئون} (سورة المائدة: 69)
    اُم المومنین حضرت عائشہ نے جواب میں فرمایا: "یہ لکھنے والوں کا کام ہے انہوں نے کتاب میں غلطیاں کی ہیں۔"
    (كتاب المصاحف لابن ابی داؤد، ص129، الناشر: الفاروق الحديثة، القاهرة / تفسير الطبري جامع البيان، ج9 ص395، ط دار التربية والتراث)

    امام سیوطی نے اس روایت کو شیخین (امام بخاری و امام مسلم) کی شرط پہ صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
    (الإتقان، ج2 ص320، الهيئة المصرية العامة للكتاب)
    دور حاضر کے مشہور محقق سليم الهلالي نے اس روایت کو حضرت عائشہ سے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے كتاب المصاحف (ص240، رقم 110، الناشر: مؤسسۃ غراس للنشر و التوزیع، کویت)

    گویا ہمارے پاس مطبوعہ مصاحف قرآن میں ان مندرجہ بالا تین مقامات پہ جیسا لکھا ہوا ہے، حضرت عائشہ اسے کاتبوں اور لکھنے والوں کی غلطی قرار دیتی تھیں۔ واللہ اعلم

    ٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ

    یہ وہ عظیم المرتبت صحابی ہیں جنہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ لگا کر دعا دی تھی کہ "اے اللہ! اسے اپنی کتاب (قرآن) کا علم سکھا۔“ (صحیح بخاری، رقم 75، 7270)

    5) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: "جب یہ آیت نازل ہوئی (( و انذر عشیرتک الاقربین و رحطک منھم المخلصین )) ۔۔۔۔۔الخ
    (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ تبت یدا ابی لھب، رقم 4971)

    قرآن مجید کی جس آیت کو حضرت ابن عباس نے تلاوت کیا ہے وہ ہمارے مصاحف کے مطابق سورۃ الشعراء کی آیت (نمبر 214) ہے۔ مگر وہاں ((و رحطک منھم المخلصین)) کے الفاظ آج موجود نہیں۔
    حضرت ابن عباس کا اس آیت کو ان الفاظ کے ساتھ پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس آیت میں ((و رحطک منھم المخلصین)) کے الفاظ بھی قرآن کا حصہ تھے۔ اگر سلسلہ سند کو دیکھا جائے تو ابن عباس نے یہ حدیث اور یہ آیت اپنے شاگرد مشہور تابعی سعید بن جبیر کے سامنے بیان کی ہے، جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ حضرت ابن عباس دورِ تابعین میں بھی اور پھر آگے سعید بن جبیر بھی اسی طرح سورۃ الشعراء کی اس آیت کو ((و رحطک منھم المخلصین)) کے اضافے کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے۔

    6) حضرت عبداللہ بن عباس نےایک آیت کے متعلق گواہی دے رکھی ہے کہ یوں نازل ہوئی تھی: "لیس علیکم جناح ان تبغوا فضلاً من ربکم فی مواسم الحج"
    "قراها ابن عباس"
    یعنی حضرت ابن عباس اسی طرح تلاوت کرتے تھے۔
    (صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب ما جاء في قول الله تعالى فإذا قضيت الصلاة فانتشروا۔۔۔، رقم 2050)
    حضرت ابن عباس ہی کی گواہی سے یہ آیت صحیح بخاری میں تین اور مقامات پر بھی اسی طرح اسی تلاوت کے ساتھ موجود ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری (رقم 1770، 2098، 4519)

    موجودہ قرآنی مصاحف میں یہ آیت سورۃ البقرۃ (آیت 198) کا حصہ ہے، مگر وہاں پر "فی مواسم الحج" کے الفاظ موجود نہیں جو کہ ابن عباس کی گواہی کے مطابق نازل ہوئے تھے اور وہ اس آیت کو تابعین کے دور میں بھی اسی طرح تلاوت کرتے تھے۔

    7) مشہور تابعی سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس اس طرح آیت کی تلاوت کرتے تھے: "وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا" اور اس آیت کی بھی یوں تلاوت کرتے تھے: "وأما الغلام فكان كافرا وكان أبواه مؤمنين"
    (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب {وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ البَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا}، رقم 4725 / مستدرک حاکم، رقم 2959)
    ہمارے پاس موجود قرآنی نسخوں کے مطابق یہ سورۃ الکہف کی آیات (79-80) ہیں لیکن حضرت ابن عباس ان آیات کو ہمارے مصاحف کے مطابق تلاوت نہیں کرتے تھے بلکہ آیت (79) میں "أمامهم" پڑھتے جبکہ ہمارے نسخوں میں اس کی جگہ لفظ "وَرَاءَهُم" ہے، اسی طرح اسی آیت میں ابن عباس "سفينة صالحة" پڑھتے جبکہ ہمارے مصاحف میں "صالحة" کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں۔
    اس سے اگلی آیت (80) میں بھی ہمارے موجودہ نسخوں میں "كافرا وكان" کے الفاظ نہیں ہیں جو حضرت ابن عباس کے مطابق قرآن کا حصہ تھے اور وہ دور تابعین میں بھی اپنے شاگردوں کو اسی طرح سکھاتے اور تلاوت کرتے تھے۔

    ٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

    حضرت ابوبکر کے دور میں قرآن کی پہلی تدوین کا جو کام ہوا تھا، اس کے بعد حضرت عثمان کے دور میں بھی قرآن کو لے کر پریشانی کا معاملہ بنا۔ چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے کہ "حضرت حذیفہ لوگوں کے قرآن پڑھنے میں اختلاف کے باعث سخت پریشان تھے۔" حضرت حذیفہ نے جب یہ مسئلہ حضرت عثمان کے سامنے پیش کیا تو "حضرت عثمان نے کسی کو حضرت حفصہ کے پاس بھیجا کہ وہ صحیفے (جو حضرت ابوبکر کے دور میں جمع ہوئے تھے) ہمیں دیں تاکہ ہم انہیں (مزید) مصاحف میں نقل کر لیں، پھر وہ آپ کو واپس کر دیں گے۔"
    اس کے بعد حضرت زید، حضرت عبداللہ بن زبیر وغیرہ سمیت چار صحابہ کو حکم دیا گیا کہ قرآن کو صرف قریش کے محاورے کے مطابق لکھا جائے۔ "جب تمام صحیفوں کو مختلف مصاحف میں نقل کر لیا گیا تو حضرت عثمان نے۔۔۔۔ اپنی سلطنت کے ہر علاقے میں نقل شدہ مصحف کا ایک نسخہ بھیج دیا اور حکم دیا کہ اس کے علاوہ اگر کوئی چیز قرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے، خواہ وہ کسی صحیفے میں ہو یا مصحف میں اسے جلا دیا جائے۔" تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح بخاری (رقم 3987)
    حضرت عثمان نے اپنے دور میں اس طرح قرآن کے بارے اختلافات کو ختم کرنے کے لئے سرکاری سطح پر ایک طرح کے مصاحف کو شائع کرنے کی کوشش کی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ سرکاری مصحف کے علاوہ جو بھی الگ طرح کا صحیفہ یا مصحف ملیں اسے جلا کر ختم کر دیا جائے تاکہ قرآنی مصاحف کا یہ اختلاف مٹایا جا سکے۔ مگر اس کے بعد بھی حضرت عبداللہ بن مسعود جیسے جلیل المرتبت اصحاب اس سے متفق نہیں تھے۔

    8) چنانچہ خمیر بن مالک کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ (سرکاری) حکم جاری ہوا کہ مصاحف کو بدل دیا جائے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود کو پتا چلا تو فرمایا: تم میں سے جو شخص اپنا نسخہ چھپا سکتا ہے تو چھپا لے کیونکہ جو شخص جو چیز چھپائے گا اسی کے ساتھ قیامت کے دن آئے گا۔ پھر فرمایا: مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے ستر سورتیں پڑھی ہیں، کیا مَیں اسے چھوڑ دوں جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا۔" (مسند الإمام أحمد، رقم 3929 / المعجم الكبير الطبراني، رقم 8434)

    روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے متعدد بار ان کا مصحف لینے کی کوشش کی گئی لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود اپنے مئوقف پر ڈٹے رہے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ جنہوں نے حضرت عثمان کو قرآن کے بارے اختلافات سے پریشان ہو کر اس مسئلہ کی طرف توجہ مبذول کروائی تھی، خود انہوں نے بھی حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا:
    "ان کو یہ مصحف دے دو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے جواب دیا: "خدا کی قسم! مَیں یہ مصحف ہرگز ان کو نہیں دوں گا۔ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر سے زائد سورتیں پڑھائی ہیں، پھر مَیں یہ مصحف ان کو دے دوں؟ واللہ! مَیں یہ مصحف ہرگز ان کے حوالے نہیں کروں گا۔"
    (مستدرک حاکم، رقم 2896، امام حاکم نے اس روایت کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے جبکہ امام ذہبی نے بھی صحیح قرار دینے میں ان کی موافقت کی ہے۔)
    ان روایات سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عثمان کے مصاحف کو سرکاری سطح پر ایک ہی طرح شائع کرنے اور باقی مصاحف کو جلا کر ختم کر دینے کے فیصلے سے حضرت عبداللہ بن مسعود ہرگز اتفاق نہیں کرتے تھے اور وہ مسلسل اپنے مصحف پر قائم رہے بلکہ اپنے شاگردوں اور متعلقین کو بھی اسی کی تاکید کرتے رہے۔

    حضرت ابوبکر کے دور میں قرآن کی جو تدوین ہوئی اور اسی طرح بعد میں حضرت عثمان کے دور میں جو مصاحف تیار کئے گئے، ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی بجائے حضرت زید بن ثابت شامل رہے۔ روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود اس معاملے کو لے کر بھی بات کیا کرتے تھے۔
    چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود اس پر فرمایا کرتے: "مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ستر سورتیں سیکھی ہیں اور زید بن ثابت تو چھوٹا بچہ ہوتا تھا اور دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔"
    (مستدرک حاکم، رقم 2897، امام حاکم نے اس روایت کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے جبکہ امام ذہبی نے بھی صحیح قرار دینے میں ان کی موافقت کی ہے۔)

    حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ دیگر صحابہ بھی یہ گواہی دیتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر دور میں بھی آخری قراءت حضرت زید کی نہیں بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی تھی۔
    حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا: تم کون سی قراءت کو آخری قراءت سمجھتے ہو؟ لوگوں نے کہا: زید کی قراءت کو۔ (حضرت ابن عباس نے) فرمایا:" نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال جبرئیل کو قرآن سنایا کرتے تھے لیکن جس سال آپ کا وصال ہوا، اس سال آپ نے دو مرتبہ جبرئیل کو قرآن سنایا اور ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی قراءت سب سے آخری تھی۔"
    (مستدرک حاکم، رقم 2903، امام حاکم نے اس روایت کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے جبکہ امام ذہبی نے بھی صحیح قرار دینے میں ان کی موافقت کی ہے۔)
    یہاں یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرات آخری ہی صرف نہ تھی بلکہ یہ ان چار جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ایک ہیں کہ جن سے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سیکھنے اور حاصل کرنے کا حکم دیا تھا۔ دیکھئے صحیح بخاری (رقم 4999)

    9) حضرت عبداللہ بن مسعود کے چند شاگرد تابعین نے ایک اور صحابی رسول حضرت ابو درداء کے سامنے سورۃ الیل کی آیات یوں تلاوت کی: ((واللیل اذا یغشیٰ ، والنہاراذا تجلیٰ ، والذکر والانثیٰ)) اور گواہی دی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود اسی طرح تلاوت کرتے تھے۔ ابو درداء نے اس پر فرمایا: 
    "میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح پڑھتے سنا ہے لیکن یہ شام کے لوگ چاہتے ہیں کہ میں " وما خلق الذکر والانثیٰ" پڑھوں۔ اللہ کی قسم ! میں کسی صورت میں ان کی پیروی نہ کروں گا۔"
    (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب والنہار اذا تجلیٰ، حدیث: 4944، 4943 / صحیح مسلم، رقم 1916 دارالسلام / سنن ترمذی، رقم 2939)

    موجودہ مصاحف میں سورۃ الیل کی یہ آیت (نمبر3) "وما خلق الذکر والانثیٰ"کے الفاظ کے ساتھ موجود ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابودرداء جیسے صحابہ کرام اور ان کے شاگرد تابعین اس آیت کو "ما خلق" کے الفاظ کے بغیر پڑھتے تھے اور اسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت قرار دیتے تھے۔ حضرت ابودرداء کے الفاظ کی شدت سے صاف ظاہر ہے کہ وہ موجودہ مصاحف قرآن کے مطابق اس آیت کو پڑھنے کا کھلم کھلا انکار کرتے بلکہ اسے شام کے لوگوں کا اضافہ سمجھتے.

    10) تابعی حضرت زر بن حبیش سے روایت ہے کہ مَیں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے معوزتین (سورۃ الفلق و سورۃ الناس) کے بارے میں دریافت کیا اور کہا: اے ابو المنذر! بے شک آپ کے بھائی (حضرت عبداللہ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کو مصحف (قرآن) سے مٹا دیتے تھے۔ (حضرت ابی بن کعب نے) فرمایا: مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پس مجھے کہا گیا تو مَیں نے کہہ دیا۔" پس ہم بھی وہ وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔"
    (سنن کبریٰ بیہقی، رقم 4045 / مصنف ابن ابی شیبۃ، رقم 30828 / معرفة السنن والآثار، ج3 ص341، رقم 4838 / السنن المأثورة للشافعي، ج1 ص168، رقم 94 / شرح مشكل الآثار، ج1 ص111، رقم 118 / صحیح ابن حبان، رقم 4429)

    تابعی کبیر حضرت عبدالرحمٰن بن یزید فرماتے ہیں کہ "حضرت عبداللہ بن مسعود مصاحف میں سے معوزتین کو مٹاتے تھے اور فرماتے کہ یہ دونوں (سورتیں) اللہ کی کتاب میں سے نہیں ہیں۔"
    (مسند الإمام أحمد، رقم 21187 و قال محقق شعيب الأرنؤوط: إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الصحيح / مصنف ابن ابی شیبۃ، رقم 30831 / مسند البزار: ج5 ص29، رقم 1586)

    امام سیوطی فرماتے ہیں کہ "طرق صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضرت ابن مسعود مصحف سے معوذتین کو مٹایا کرتے تھے اور فرماتے: قرآن کو غیر قرآن سے خلط ملط نہ کرو۔ یہ دونوں سورتیں اللہ تعالیٰ کی کتاب کا حصہ نہیں ہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (صرف) تعوذ کا حکم دیا ہے اور ابن مسعود (نماز میں) ان کی قراءت نہیں کرتے تھے۔" (الدر المنثور: ج8 ص683، تحت تفسیر سورۃ الفلق)

    (شعیب محمد)

    في قرآن
    # اسلام اسلامی مسائل تاریخ اسلام قرآن
    پورا قرآن کیا تھا؟

    یہ ویب سائٹ علمی جستجو، مطالعہ اور فکری مباحث کو فروغ دینے کے مقصد سے قائم کی گئی ہے۔ یہاں آپ کو مذہب، تاریخ، عقیدہ و مسائل اور معاشی و مالی معاملات سے متعلق مضامین پیش کیے جاتے ہیں، تاکہ قاری اپنے علم میں اضافہ کرے اور مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کر سکے۔ ہماری کوشش ہے کہ مواد سادہ، قابلِ فہم اور تحقیق پر مبنی ہو، تاکہ یہ ہر سطح کے قارئین کے لیے مفید ثابت ہو۔

    رابطہ کیجئے

    اس ویب سائٹ پر شائع ہونے والی تحریریں  لکھنے والوں کی ذاتی آراء اور مطالعہ پر مبنی ہیں۔ کسی بھی ادارے، تنظیم یا جماعت کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ قاری اپنی سمجھ بوجھ اور تحقیق کے مطابق مواد سے استفادہ کرے۔

    • afkarenau@protonmail.com 
    Copyright © Company name
    مشغل بواسطة أودو - إنشاء موقع إلكتروني مجاني