حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت
حضرت مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بنو ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اجازت چاہی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی علی بن ابی طالب سے کر دیں، میں انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔، پھر میں انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا، الا یہ کہ (علی) ابن ابی طالب پسند کریں تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور اُن کی بیٹی سے شادی کر لیں کیونکہ میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے، جو چیز اسے پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے، جو چیز اسے تکلیف دے وہ مجھے تکلیف دیتی ہے۔"
(صحیح مسلم، کتاب فضائل صحابہ، باب من فضائل فاطمہ بنت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، رقم 6307 دارالسلام)
مشہور مئورخ و محدث امام ابن کثیر بیان کرتے ہیں:
"حضرت علی نے حضرت فاطمہ پر کسی عورت سے نکاح نہیں کیا حتیٰ کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ ماہ بعد فوت ہو گئیں اور جب آپ فوت ہو گئیں تو آپ کے بعد آپ نے بہت سی بیویوں سے نکاح کیا۔"
(تاریخ ابن کثیر، جلد7 ص433، نفیس اکیڈمی کراچی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب حضرت ابوبکر کی بیعت کی گئی تو حضرت علی اور حضرت زبیر، رسول اللہ کی بیٹی حضرت فاطمہ کے ہاں آنے جانے لگے اور ان سے مشاورت کرنے لگے اور اپنے معاملہ (خلافت) میں ان سے تقاضا کرنے لگے۔ پس جب یہ بات حضرت عمر کو پہنچی تو آپ نکل کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ حضرت فاطمہ کے ہاں داخل ہوئے اور فرمایا:
"اے رسول اللہ کی بیٹی! خدا کی قسم تمام مخلوق میں ہمیں آپ کے والد سے زیادہ کوئی محبوب نہیں اور آپ کے والد کے بعد ہمیں آپ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں۔ خدا کی قسم! لیکن اگر یہ آپ کے پاس دوبارہ جمع ہوئے تو مجھے یہ (محبت والی) بات اس سے مانع نہیں ہو گی کہ مَیں لوگوں کو حکم دوں اور ان تمام افراد پر گھر کو جلا دیا جائے۔"
جب حضرت عمر چلے گئے تو یہ حضرات سیدہ فاطمہ کے پاس آئے۔ سیدہ نے فرمایا: تمہیں پتہ ہے کہ حضرت عمر میرے پاس آئے تھے۔ انہوں نے اللہ کی قسم کھا کر کہا ہے کہ اگر تم لوگ دوبارہ جمع ہوئے تو وہ ضروربالضرورتمھیں گھر میں جلا دیں گے۔ اور اللہ کی قسم! انہوں نے جو کہا ہے، اسے ضرور پورا کریں گے۔ پس تم لوگ اچھی حالت میں ہی واپس چلے جاؤ اور اپنی رائے کو دیکھ لو اور اب میری طرف واپس نہ آنا۔ چنانچہ وہ لوگ وہاں سے واپس چلے گئے اور جب تک سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کر لی، واپس نہیں آئے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المغازی، باب ما جاء فی خلافۃ ابی بکر۔۔۔ رقم 38200)
اس روایت کی سند کے تمام راوی بڑے بڑے امام اور بخاری و مسلم کے راویوں میں سے ہیں، نیز روایت کی سند بالکل متصل و صحیح ہے۔
٭ امام ابوبکر بن ابی شیبہ: حدیث کے بہت بڑے امام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بخاری، مسلم، ابوداؤد و ابن ماجہ جیسے بڑے آئمہ آپ سے روایت کرنے والوں میں سے ہیں۔
٭ حدثنا محمد بن بشر: امام ذہبی نے آپ کے بارے میں لکھا ہے: الحافظ الإمام الثبت أبو عبد الله العبدي الكوفي (سیر اعلام النبلاء)۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم سمیت صحاح ستہ کی تمام کتب میں آپ کی روایات موجود ہیں۔
٭ حدثنا عبید اللہ بن عمر: امام ذہبی ان کے بارے فرماتے ہیں: الإمام المجود الحافظ أبو عثمان القرشي العدوي (سیر اعلام النبلاء) صحاح ستہ کی تمام کتابوں میں ان کی سینکڑوں روایات موجود ہیں۔
٭ حدثنا زید بن اسلم: امام ذہبی ان کے بارے فرماتے ہیں: الإمام الحجة القدوة أبو عبد الله العدوي العمري المدني الفقيه (سیر اعلام النبلاء) ان کی روایات بھی صحاح ستہ کی تمام کتب میں موجود ہیں۔
٭ عن ابیہ اسلم: حضرت عمر بن خطاب کے آزاد کردہ مشہور غلام جن کے بارے امام ذہبی فرماتے ہیں: وقال أبو زرعة : مدني ثقة (سیر اعلام النبلاء) ان کی روایات بھی صحاح ستہ کی تمام کتب میں موجود ہیں۔