تخطي للذهاب إلى المحتوى
افکارنو
  • مرکزی صفحہ
  • مضامین اور تحریریں
    • قرآن
    • حدیث و تاریخ
    • سیرت
    • صحابہ کرام
    • عقیدہ و احکام
    • نقد و نظر
    • مالیات
    • متفرقات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
افکارنو
      • مرکزی صفحہ
      • مضامین اور تحریریں
        • قرآن
        • حدیث و تاریخ
        • سیرت
        • صحابہ کرام
        • عقیدہ و احکام
        • نقد و نظر
        • مالیات
        • متفرقات
      • ہمارے بارے میں
    • رابطہ

    حضرت عمر کی شہادت کا بدلہ

    حضرت عمر کی شہادت کے بعد کیا ہوا؟
  • كافة المدونات
  • صحابہ کرام
  • حضرت عمر کی شہادت کا بدلہ
  • 26 يونيو 2018 بواسطة
    شعیب محمد

    حضرت عمر کی شہادت کا بدلہ

    (مصنف عبدالرزاق کی روایت)

    حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر کو شہید کیا گیا (اس سے کچھ دن پہلے) مَیں ہرمزان، جفینہ اور ابولؤلؤ کے پاس سے گزرا، وہ سرگوشی میں گفتگو کر رہے تھے۔ مَیں نے انہیں ڈانٹا، وہ اٹھنے لگے تو ان کے درمیان سے ایک خنجر نیچے گرا، جس کے دو سرے تھے اور اس کا نصاب درمیان میں تھا۔ عبدالرحمٰن بن ابوبکر کہتے ہیں: بعد میں (جب حضرت عمر کی شہادت ہو گئی) تو مَیں نے کہا: تم لوگ اس بات کا جائزہ لو کہ حضرت عمر کو کس چیز کے ذریعہ شہید کیا گیا؟ جب لوگوں نے اس بات کا جائزہ لیا تو انہیں وہ خنجر اسی شکل میں مل گیا جو عبدالرحمٰن بن ابوبکر نے بیان کی تھی۔۔۔۔

    پھر (حضرت عمر کے صاحبزادے) عبیداللہ بن عمر اپنی تلوار لہراتے ہوئے نکلے، وہ ہرمزان کے پاس آئے اور بولے: تم میرے ساتھ چلو! تاکہ ہم ایک گھوڑے کا جائزہ لیں، جو مَیں نے خریدنا ہے۔ ہرمزان گھوڑوں کے معاملے میں بہت مہارت رکھتا تھا، وہ اُن کے آگے چلتے ہوئے گئے، پھر عبیداللہ نے اس پر تلوار سے وار کیا۔ جب اسے تلوار کی آہٹ محسوس ہوئی تو اس نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیا لیکن اس کے باوجود عبیداللہ بن عمر نے اسے قتل کر دیا۔ پھر وہ جفینہ کے پاس آئے، وہ ایک عیسائی شخص تھا، انہوں نے اسے پکارا، جب وہ ان کے سامنے آیا تو انہوں نے اس پر تلوار کا وار کیا اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان حملہ کیا۔ پھر وہ ابولؤلؤ کی کمسن بیٹی کے پاس آئے جو ایک کمسن لڑکی تھی اور خود کو مسلمان ظاہر کرتی تھی، انہوں نے اسے بھی قتل کر دیا۔ اس دن مدینہ اہل مدینہ کے لئے تاریک ہو گیا، پھر وہ اپنی تلوار اسی طرح لہراتے ہوئے آئے، وہ یہ کہہ رہے تھے: اللہ کی قسم! اب مَیں مدینہ منورہ میں موجود ہر قیدی (غیر مسلم) کو قتل کر دوں گا۔ انہوں نے نے اشارے کے طور پر کچھ مہاجرین کا ذکر کیا (کہ ان کے قیدیوں کو قتل کر دوں گا)۔ لوگ ان سے کہتے رہے کہ تم تلوار رکھ دو لیکن وہ یہ بات نہیں مانے، لوگ ان کے قریب جاتے ہوئے بھی ڈر رہے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت عمرو بن عبدالعاص ان کے پاس آئے اور بولے: اے بھتیجے! تم تلوار مجھے دو تو انہوں نے تلوار دے دی۔ پھر حضرت عثمان ان کے پاس گئے، انہوں نے ان کا سر پکڑا اور وہ دونوں ان کے ساتھ لوگوں کے درمیان سے گزرتے چلے گئے۔

    جب حضرت عثمان خلیفہ بن گئے تو انہوں نے کہا: اس شخص کے بارے مجھے مشورہ دو جس نے اسلام میں اس چیز کو چیرا جو بھی چیرا ہے یعنی عبیداللہ بن عمر کے بارے مشورہ دو۔ تو مہاجرین نے انہیں مشورہ دیا کہ اسے قتل کر دیں لیکن کچھ لوگوں نے کہا: ابھی کل حضرت عمر شہید ہو گئے اور آج آپ ان کے پیچھے ان کے صاحبزادے کو بھی بھیج دیں گے، اللہ تعالیٰ نے ہرمزان اور جفینہ کو دفع کر دیا ہے تو حضرت عمرو بن عبدالعاص کھڑے ہوئے اور بولے: اے امیر المئومنین! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس حوالے سے بچا لیا ہے کہ جب یہ واقعہ ہوا تو آپ لوگوں کے حکمران نہیں تھے اور جس وقت یہ واقعہ ہوا تھا، اس وقت آپ کے پاس حکومتی غلبہ نہیں تھا، اس لئے امیر المومنین آپ ان سے درگزر کیجئے۔ راوی کہتے ہیں: حضرت عمرو کا یہ خطبہ سن کر لوگ متفرق ہو گئے اور حضرت عثمان نے ان دو افراد اور اس لڑکی کی دیت ادا کی۔

    زہری نے یہ بات بیان کی ہے کہ حمزہ بن عبداللہ بن عمر نے یہ بات بیان کی: اللہ تعالیٰ (ام المئومنین) سیدہ حفصہ پر رحم کرے، انہوں نے عبیداللہ بن عمر کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ ہرمزان اور جفینہ کو قتل کر دیں۔
    (مصنف عبدالرزاق، کتاب المغازی، باب حدیث ابولؤلؤۃ قاتل عمر رضی اللہ عنہ، رقم 9775)

    (طبقات ابن سعد کی روایت)

    مشہور بزرگ تابعی حضرت سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابوبکر نے کہا: جس وقت عمر قتل کئے گئے تو مَیں ابولولو کے پاس سے گزرا ، اس کے پاس جفینہ اور ہرمزان بھی تھے، تینوں سرگوشی کر رہے تھے، جب مَیں دفعۃ ان کے پاس پہنچ گیا تو وہ بھاگے، ان کے درمیان سے ایک خنجر گر پڑا، جس کے دو سِرے تھے اور اس کی دھار بیچ میں تھی۔
    لوگوں نے دیکھا کہ جس سے عمر قتل کئے گئے وہ کون سا خنجر ہے تو انہوں نے وہی خنجر پایا، عبدالرحمٰن بن ابوبکر نے جس کی صفت بیان کی تھی۔

    (حضرت عمر کے بیٹے) عبیداللہ بن عمر نے جب یہ بات سُنی تو وہ گئے اور ان کی تلوار بھی ساتھ تھی۔ انہوں نے ہرمزان کو پکارا ، جب وہ نکل کر سامنے آیا تو انہوں نے کہا میرے ساتھ چل کہ ہم اپنے گھوڑے کو دیکھیں اور اس (ہرمزان) کے پیچھے ہو گئے۔ جب وہ ان کے اگے سے گزرا تو انہوں نے اسے تلوار مار دی۔
    عبیداللہ کہتے ہیں کہ جب اس نے تلوار کی حرارت محسوس کی تو کہا: "لا الہ الا للہ"
    عبیداللہ نے کہا کہ پھر مَیں نے جفینہ کو بلایا جو الحیرہ کے نصاریٰ میں سے سعد بن ابی وقاص کا رضاعی بھائی تھا اور وہ اسے اس رضاعت کی وجہ سے مدینہ لائے جو ان کے اور اس کے درمیان موجود تھی اور وہ مدینہ میں لکھنے کی تعلیم دیتا تھا۔ جب مَیں نے اسے تلوار ماری تو اس نے اپنی آنکھون کے درمیان صلیب کا اشارہ کیا۔
    پھر عبیداللہ روانہ ہوئے اور انہوں نے ابولولو کی چھوٹی لڑکی کو بھی قتل کر دیا، جو اسلام کا دعویٰ کرتی تھی( یعنی مسلمان ہونے کا اقرار کرتی تھی)۔

    عبیداللہ نے یہ ارادہ کیا کہ اس روز مدینہ میں کسی (غیرمسلم) قیدی کو بغیر قتل کئے نہیں چھوڑنا، مہاجرین اولین ان کے پاس جمع ہو گئے اور انہوں نے منع کیا اور دھمکایا تو (عبیداللہ بن عمر نے) کہا: واللہ مَیں ان کو اور دوسروں کو ضرور قتل کر دوں گا اور انہوں نے بعض مہاجرین پہ بھی تعریض کی۔ (صحابی رسول) حضرت عمر بن العاص برابر ان کے ساتھ رہے اور انہیں تلوار پکڑا دی۔
    تب حضرت سعد بن ابی وقاص آئے، ان دونوں میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کا سر پکڑا اور باہم لڑنے لگے، یہاں تک کے ان کے درمیان پڑ کے انہیں روکا گیا۔
    قبل اس کے کہ ان راتوں میں حضرت عثمان سے بیعت کی جائے، عثمان آئے اور انہوں نے (ان گزرے سنگین معاملات کی وجہ سے) عبیداللہ پہ حملہ کیا اور دونوں باہم دست و گریبان ہوئے۔ جس روز عبیداللہ نے جفینہ اور ہرمزان اور ابولولو کی لڑکی کو قتل کیا، لوگوں پہ زمین تاریک ہو گئی، ان کے اور عثمان کے بیچ بچاؤ کیا گیا۔

    جب حضرت عثمان خلیفہ بنا دیے گئے تو انہوں نے مہاجرین و انصار کو بلایا اور کہا کہ مجھے اس شخص کے قتل کے بارے مشورہ دو ، جس نے دین میں رخنہ پیدا کیا۔ مہاجرین نے ایک بات پہ اتفاق کیا اور عثمان کو ان کے قتل پہ والی بنا دیا۔ مگر لوگوں کی اکثریت عبیداللہ کے ساتھ تھی جو جفینہ و ہرمزان کے لئے کہتے تھے کہ خدا ان کو دور ہی کرے اور تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ عمر کے پیچھے ان کے بیٹے کو کر دو۔
    اس معاملے میں شوروغل اور اختلاف بہت ہو گیا۔ حضرت عمرو بن العاص نے حضرت عثمان سے کہا: یا امیرالمومنین! یہ واقعہ آپ کی خلافت کے آغاز سے پہلے ہوا ہے، لہٰذا اپ ان سے درگزر کیجئے۔ حضرت عمرو کی تقریر سے لوگ منتشر ہو گئے، عثمان بھی باز آ گئے اور دونوں (قتل ہونے والے) آدمیوں اور لڑکی کا خون بہا دے دیا گیا۔

    حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ اللہ (ام المومنین حضرت) حفصہ پہ رحم کرے، وہ ان لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے عبیداللہ کو ان لوگوں کے قتل پہ بہادر بنایا۔
    (طبقات ابن سعد، ج2 حصہ سوم ص116-117، طبع نفیس اکیڈمی کراچی)

    امام ابن کثیر حضرت عبیداللہ بن عمر کے بارے لکھتے ہیں:
    "انہوں نے حضرت عمر کے قاتل ابولولوہ کی بیٹی کو جا کر قتل کر دیا اور جفینہ نامی شخص پہ تلوار کا وار کر کے قتل کر دیا اور حاکم تستر ہرمزان کو بھی تلوار مار کے قتل کر دیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر کے قتل میں ان دونوں نے ابولولوہ کی مدد کی تھی۔ واللہ اعلم"
    (تاریخ ابن کثیر، ج7 ص199، طبع نفیس اکیڈمی کراچی)

    ان تفصیلی روایات سے خلافت راشدہ کے دور میں جرائم کی تحقیق، مجرموں کو سزا و معافی اور نظام عدل و انصاف کے بارے کافی مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ایسے واقعات ان حضرات کے لئے کافی چشم کشا ہو سکتے ہیں جو خلافت کو آئیڈیل نظام کے طور پر پیش کرتے ہیں جہاں اپنے پرائے کے لئے کوئی فرق نہیں رکھا جاتا تھا اور عدل و انصاف کا بول بالا تھا۔

    واللہ اعلم

    في صحابہ کرام
    # تاریخ اسلام خلافت صحابہ کرام
    حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت

    یہ ویب سائٹ علمی جستجو، مطالعہ اور فکری مباحث کو فروغ دینے کے مقصد سے قائم کی گئی ہے۔ یہاں آپ کو مذہب، تاریخ، عقیدہ و مسائل اور معاشی و مالی معاملات سے متعلق مضامین پیش کیے جاتے ہیں، تاکہ قاری اپنے علم میں اضافہ کرے اور مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کر سکے۔ ہماری کوشش ہے کہ مواد سادہ، قابلِ فہم اور تحقیق پر مبنی ہو، تاکہ یہ ہر سطح کے قارئین کے لیے مفید ثابت ہو۔

    رابطہ کیجئے

    اس ویب سائٹ پر شائع ہونے والی تحریریں  لکھنے والوں کی ذاتی آراء اور مطالعہ پر مبنی ہیں۔ کسی بھی ادارے، تنظیم یا جماعت کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ قاری اپنی سمجھ بوجھ اور تحقیق کے مطابق مواد سے استفادہ کرے۔

    • afkarenau@protonmail.com 
    Copyright © Company name
    مشغل بواسطة أودو - إنشاء موقع إلكتروني مجاني