حضرت عثمان کی شہادت
1) جب حضرت عثمان کا محاصرہ کر لیا گیا تو حضرت علی دوسرے صحابی رسول حضرت طلحہ کے پاس تشریف لائے، وہ اپنے گھر میں تکیوں پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ حضرت علی نے فرمایا: "مَیں تم کو قسم دیتا ہوں، آپ نے لوگوں کو امیرالمومنین سے نہیں روکا تو ان کو قتل کر دیا جائے گا۔"حضرت طلحہ نے فرمایا: "اللہ کی قسم نہیں روکوں گا، یہاں تک کہ بنو امیہ اپنے پاس سے لوگوں کا حق دے دیں۔"
(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 38832)
2) حضرت علی نے بصرہ میں خطبہ دیا: اللہ کی قسم! مَیں نے عثمان کو قتل نہیں کیا اور نہ مَیں نے ان کے قتل میں معاونت کی۔ جب وہ منبر سے نیچے اترے تو آپ کے کسی ساتھی نے کہا: پھر آپ نے کیا کیا؟ اب تو آپ کے ساتھی بھی آپ سے جدا ہو رہے۔ پس جب حضرت علی واپس منبر پہ آئے تو فرمایا: "عثمان کے قتل کے بارے سوال کرنے والا کون ہے؟ بے شک! عثمان کو اللہ نے قتل کیا اور مَیں اس کے ساتھ ہوں۔" (راوی) محمد نے کہا: یہ (آخری) کلمہ زوجہین (یعنی دہرا مطلب رکھتا) ہے۔"
(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 38833)
3) حضرت عثمان سے لوگوں کو کچھ شکایات تھیں، جن کا ازالہ کرنے کی کوشش حضرت عثمان نے کی تھی۔ ایسے ہی ایک موقع پہ ایک گروہ کو حضرت عثمان نے خود پہ ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا۔ لوگوں کو ان کے مقرر کردہ جن گورنروں سے شکایات تھیں، آپ نے ان گورنروں کو بھی بدلا۔
یہ لوگ مطمئن ہو کے واپس ہوئے لیکن یہ گروہ ابھی راستے میں ہی تھا کہ ان کے پاس سے ایک سوار گزرا۔ پس ان کو اس پہ شک ہوا، انہوں نے تحقیق کی تو اس سے ایک خط برامد ہوا جو ان کے عامل کا نام تھا کہ تم فلاں فلاں کی گردن مار دو۔ سو اس کے بعد یہ گروہ واپس پلٹا اور حضرت علی کو بتایا۔ پھر ان کے ساتھ حضرت علی حضرت عثمان کے پاس گئے اور انہوں نے حضرت عثمان سے کہا: یہ رہا آپ کا خط اور یہ رہی آپ کی (خط پہ) مہر۔
حضرت عثمان نے فرمایا: اللہ کی قسم! مَیں نے خط لکھا نہ مَیں اس کے بارے کچھ جانتا ہوں، نہ مَیں نے اس بارے کوئی حکم دیا ہے۔ حضرت علی نے فرمایا: پھر آپ کے خیال میں کون ہو سکتا ہے لکھنے والا یا اپ اس کی تہمت کس پہ لگائیں گے؟
حضرت عثمان نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ میرے کاتب نے مجھے دھوکہ دیا ہے اور اے علی! مجھے تم پہ بھی شک ہے۔ حضرت علی نے کہا: لوگ (یہ کاتب وغیرہ) آپ کی ہی اطاعت کرنے والے ہیں۔۔۔۔
(جو گروہ ساتھ آیا تھا، ان) لوگوں نے حضرت عثمان کا اعتبار نہ کیا اور اپنی ضد پہ اڑے رہے، یہاں تک کہ حضرت عثمان کا محاصرہ کر لیا گیا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 38846)
4) حضرت عثمان کا محاصرہ کرنے والوں میں مالک اشتر بھی پیش پیش تھا۔ ایک موقع پر حضرت علی نے اشتر کا ہاتھ تھاما اور چل دئیے۔ یہاں تک کہ حضرت طلحہ کے پاس آئے اور فرمایا: یہ لوگ یعنی اہل مصر آپ کی بات سنتے ہیں اور آپ کی اطاعت کرتے ہیں، پس ان کو حضرت عثمان کے قتل سے منع کریں۔
(حضرت طلحہ نے) جواب دیا: جس خون کو اللہ نے بہانے کا ارادہ کر لیا ہے، مَیں اسے نہیں روک سکتا۔ پس حضرت علی نے اشتر کا ہاتھ پکڑا اور واپس آ گئے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 38865)
5) حضرت ابوبکر صدیق کا بیٹا محمد بھی حضرت عثمان کے قاتلین میں سے تھا۔ اس کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ وہ جھپٹ کر حضرت عثمان کے سینے پہ چڑھ گیا اور آپ کو داڑھی سے پکڑ لیا۔ حضرت عثمان نے فرمایا: اگر تُو نے یہ کام کیا تو تیرے باپ پہ بڑا گراں گزرے گا، تُو ان کو تکلیف پہنچائے گا۔
(راوی نے) کہا: اُس نے اپنے ہاتھ میں موجود لکڑی آپ کے گلے پہ ماری۔
(المعجم الکبیر للطبرانی، رقم 116)
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ محمد بن ابوبکر آیا، اس کے ساتھ تیرہ ادمی اور تھے۔ وہ حضرت عثمان کے پاس آ کر رک گیا اور آپ کو داڑھی سے پکڑ لیا اور کہا جو کہا۔ یہاں تک کہ اس کے منہ سے آواز آئی: معاویہ تمھیں فائدہ نہ دے سکیں گے، ابن عامر تمھیں فائدہ نہ دیں گے، تھارے خطوط کسی کام نہ آئیں گے۔
آپ (حضرت عثمان) نے فرمایا: اے میرے بھائی کے بیٹے! میری داڑھی چھوڑ دو، دوسری بار بھی یہی کہا۔۔۔۔ اُس نے اپنی قوم سے ایک آدمی بلایا، وہ ایک لکڑی لے کر اس کی طرف آیا، یہاں تک کے اس کو آپ کے سر پہ دے مارا۔۔۔۔ پھر (وہ سب) آپ پہ ٹوٹ پڑے یہاں تک کے انہوں نے آپ کو شہید کر دیا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی، رقم 114 / مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 38234)
6) روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت علی نے اس معاملے کو اس وقت روکنے کی کوشش کی تھی لیکن شہادت کے بعد محاصرہ کرنے والوں کا سرغنہ مالک اشتر حضرت علی کے دور خلافت میں بھی ان کے قریب ترین ساتھیوں میں رہا اور یہی معاملہ محمد بن ابوبکر کا بھی تھا۔ جنگ جمل کے موقع پہ بھی مارے جانے والوں کا جائزہ لینے والوں میں حضرت علی کے ساتھ حضرت حسن اور حضرت عمار بن یاسر کے ہمراہ محمد بن ابوبکر بھی موجود تھا۔ اس دوران جب کسی نے کہا کہ لوگ ہم سے حضرت عثمان کے متعلق پوچھیں گے تو آپ اس بارے کیا کہتے ہیں؟ تو حضرت عمار بن یاسر اور محمد بن ابوبکر نے اس کو ہدایات دینا شروع کی۔
حضرت علی نے ان سے فرمایا: اے عمار اور اے محمد (بن ابوبکر)! تم یہ کہتے ہو کہ حضرت عثمان نے امور سلطنت بگاڑ دئے تھے، اللہ نے اب ان کو وفات دے دی ہے اور اب تم ان کے پیچھے پہنچ رہے ہو۔ خدا کی قسم! تمھیں بُری سزا ملے گی۔۔۔۔ پھر آپ نے (پوچھنے والے سے) فرمایا: جب تم مدینہ پہنچو اور لوگ تم سے حضرت عثمان کے بارے سوال کریں تو تم کہنا؛ خدا کی قسم! وہ ان لوگوں میں سے تھے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے، پھر تقویٰ اختیار کیا اور اللہ اچھا عمل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور مومنوں کو اللہ پہ ہی بھروسہ کرنا چاہئے۔ (مستدرک حاکم، رقم 4557)
7) طلیق بن خشاف سے روایت ہے کہ مَیں چلتے ہوئے حضرت عائشہ کے پاس آیا۔۔۔۔ مَیں نے ان سے عرض کی: اے ام المومنین! کس بات میں امیر المومنین حضرت عثمان کی شہادت ہوئی۔
(حضرت عائشہ نے) فرمایا: قسم اللہ کی! انہیں انتہائی مظلومیت کی حالت میں شہید کیا گیا۔ آپ کے قاتلوں پہ اللہ لعنت کرے۔ ابن ابوبکر سے اللہ اس کا قصاص لے۔ اللہ بنی تمیم کی آنکھوں کی طرف اپنے گھر میں زلت کی چکی چلائے۔ اللہ بن بدیل کا خون گمراہی پہ بہا دے اور اشتر کی طرف اپنے تیروں میں سے ایک تیر بھیجے۔ (راوی کہتا ہے) اس گروہ میں سے ایک آدمی بھی نہ تھا، جس کو اپ کی بددعا نہ لگی ہو۔
(المعجم الکبیر للطبرانی، رقم 131)
8 ) علقمہ بن وقاص کہتے ہیں: حضرت عثمان کے قتل کے بعد ہم مخرمہ کے گھر میں بیعت کرنے کے ارادہ سے اکٹھے ہوئے۔ ابوجہم بن حذیفہ نے کہا: تم میں سے جس کے ہاتھ پر بھی ہم بیعت کریں گے، قصاص سے کم پہ کوئی مطالبہ نہیں کریں گے۔
حضرت عمار بن یاسر فوراً بول پڑے کہ کیا تیری مراد حضرت عثمان کے خون کا قصاص ہے تو وہ ہم نہیں لیں گے۔ ابوجہم نے کہا: اے ابن سمیہ! (عجیب بات ہے کہ) ان کوڑوں کا بدلہ تو لیا جائے جو تمھیں لگے لیکن نہ لیا جائے تو حضرت عثمان کے خون کا بدلہ نہ لیا جائے۔ پس وہ بیعت کئے بغیر لوٹ گئے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی، رقم 113 / التاریخ الصغیر: رقم 333 / مجمع الزوائد: ج9 ص98)