صحابی رسول حُجر بن عدی کا تذکرہ
مشہور تابعی امام ابن سیرین رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: حضرت معاویہ نے (صحابی رسول) حضرت حجر بن عدی کو قتل کرنے کا حکم دیا تو حضرت حجر نے کہا: تم لوگ میری بیڑیاں نہ کھولنا اور مجھے میرے خون اور کپڑوں سمیت دفن کر دینا۔"
(مصنف عبدالرزاق، کتاب الجہاد، بَابُ الصَّلاةِ عَلَى الشَّهِيدِ وَغُسْلِهِ، رقم 9351 ,اردو نسخہ9585 )
حضرت نافع فرماتے ہیں: جب حضرت حجر بن عدی کو حضرت معاویہ کی جانب بھیجا جا رہا تھا تو لوگ بہت حیران تھے اور پوچھتے تھے کہ حجر کا قصور کیا ہے؟ یہ خبر حضرت عبداللہ بن عمر تک پہنچی، وہ اس وقت بازار میں کہین روپوش تھے۔ آپ نے اپنی روپوشی ختم کی اور لوگوں کے درمیان آ گئے۔ جب وہ واپس جا رہے تھے تو مَیں ان کی پھوٹ پھوٹ کر رونے کی آوازیں سن رہا تھا۔"
(مستدرک حاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب ذکر مناقب حجر بن عدی رضی اللہ عنہ، رقم 5975)
بزرگ تابعی امام سعید بن مسیب مروان کا بیان نقل کرتے ہیں: "مَیں حضرت معاویہ کے ہمراہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ام المومنین عائشہ نے فرمایا: اے معاویہ! تُو نے حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا ہے اور ان کے ساتھ تم نے بہت زیادتی کی ہے۔" اس کے بعد راوی نے پورا قصہ نقل کیا۔
(مستدرک حاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب ذکر مناقب حجر بن عدی رضی اللہ عنہ، رقم 5984)
حضرت معصب بن عبداللہ زبیری فرماتے ہیں: حضرت حجر بن عدی کی کنیت ابو عبدالرحمٰن تھی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آئے تھے۔ جنگ قادسیہ میں حاضر تھے اور جنگ جمل و صفین میں حضرت علی کے ہمراہ تھے۔ حضرت معاویہ بن ابوسفیان نے ان کو مقام 'مرج عذراء' پر قتل کیا۔ ان کے دو بیٹے عبداللہ اور عبدالرحمٰن تھئ جنہیں معصب بن عمیر نے باندھ کر شہید کیا تھا۔
(مستدرک حاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب ذکر مناقب حجر بن عدی رضی اللہ عنہ، رقم 5974)
امام و محدث حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: "حضرت حجر بن عدی جنگ قادسیہ میں شریک ہوئے۔ اس کے بعد جنگ جمل و صفین میں شریک ہو کر حضرت علی کا ساتھ دیا اور وہ آپ کے مددگاروں میں سے تھے۔ تقدیر کا نوشتہ دیکھیں جس علاقہ مرج عذراء کو انہوں نے فتح کیا تھا، وہیں حضرت معاویہ کے حکم سے قتل ہوئے۔"
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ اردو، ج1 ص581، رقم 1631، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)
حضرت حجر بن عدی کے صحابی رسول ہونے پہ گواہیاں
کچھ لوگ حضرت حُجر بن عدی کی صحابیت کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے لئے آئمہ محدثین اور علماء کی گواہیاں پیش خدمت ہیں:
1) مشہور امام علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ صحابہ کرام کے بارے لکھی اپنی خصوصی کتاب میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں: "كان حجر من فضلاء الصحابة" یعنی حجر بن عدی کا شمار فاضل صحابہ میں ہوتا ہے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج1 ص329، رقم 487)
2) علامہ ابن اثیر الجزری رحمہ اللہ نے بھی حضرت حجر بن عدی کو صحابہ کرام میں شمار کرتے ہوئے لکھا: "وكان من فضلاء الصحابة" (اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج1 ص697، رقم 1093)
3) مشہور محدث امام حاکم رحمہ اللہ ان کے بارے فرماتے ہیں: "ذِكْرُ مَنَاقِبِ حُجْرِ بْنِ عَدِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَهُوَ رَاهِبُ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" یعنی حضرت حجر بن عدی کے مناقب کا بیان جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں۔ (مستدرک حاکم، ج3 ص531)
4) مشہور محدث و امام علامہ ذہبی رحمہ اللہ ان کے بارے صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں: "ولحُجْر صُحْبة ووفادة، مَا رَوَى عَن النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شيئًا" یعنی حضرت حجر بن عدی نے صحبت بھی پائی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بھی کیا ہے۔
(تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام للذہبی، ج2 ص482)
نیز دیکھئے علامہ ذہبی کی دوسری مشہور کتاب سير أعلام النبلاء (ج4 ص456)
5) ماہر نقاد محدث حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی صحابہ کرام کے بارے لکھی اپنی خصوصی کتاب میں حضرت حجر بن عدی کو صحابہ میں شمار کیا ہے اور ان کو تابعی قرار دینے والوں کا نام لے کر رد کرتے ہوئے لکھا: "ان کے گمان میں یہ کوئی دوسرے شخص ہیں یا انہیں چُوک ہو گئی ہے۔" (الاصابہ فی تمییز الصحابہ اردو، ج1 ص581، رقم 1631)
6) آخر میں اتمام حجت کے طور پر دور حاضر کے مشہور اہل حدیث محقق و عالم علامہ ارشاد الحق اثری کا کلام پیش خدمت ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: "حجر بن عدی صحابی رسول ہیں۔۔۔۔ امام حاکم نے مستدرک میں، حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں، حافظ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء، تجرید اسماء الصحابہ، العبر، تاریخ اسلام میں، ابن حماد نے شذرات الذہب میں، ابن حزم نے جمہرۃ الانساب العرب میں اور ابن عساکر وغیرہ نے انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے۔" (مقالات، ج3 ص346)
پھر انہیں تابعی قرار دینے کا بھرپور رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "امام بخاری، امام ابو حاتم اور امام ابن حبان نے انہیں تابعین مین شمار کیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے جبکہ ابوبکر بن حفص جیسے تابعین ان کے بارے میں حجر بن عدی رجل من الاصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اور معصب بن عبداللہ الزبیری جیسے امام بھی انہیں صحابی قرار دیتے ہیں اور اکثر متاخرین کی بھی یہی رائے ہے۔" (مقالات، ج3 ص347)
اس سب کے باوجود کوئی محض تعصب میں حضرت حجر بن عدی کو تابعی ہی قرار دینا چاہے تو عرض صرف اتنی ہے کہ کیا اسلام میں صرف صحابی کا قتل ہی جرم ہے یا تابعی کا قتل خوشی کی بات ہے؟ انا للہ و انا الیہ راجعون
(شعیب محمد)