حضرت عائشہ کی رخصتی
حضرت عائشہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا تو مَیں چھ برس کی تھی۔ پھر ہم مدینہ (ہجرت کر کے) آئے اور بنو حارث کے محلے میں قیام کیا تو مجھے بخار آنے لگا، جس نے میرے بال گرا دئے۔ پھر جب میرے کندھوں تک بال ہو گئے تو ایک دن میری والدہ ام رومان میرے پاس آئیں۔
اس وقت مَیں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی۔ انہوں نے مجھے زور سے آواز دی تو مَیں اس کے پاس چلی آئی اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ مجھے کیوں بلا رہی ہیں؟
انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا جبکہ میرا سانس پھول رہا تھا۔ حتیٰ کہ میرا سانس بحال ہوا تو انہوں نے کچھ پانی لے کر میرے منہ اور سر پہ ڈالا، پھر مجھے گھر کے اندر لے گئیں۔ وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں، انہوں نے کہا: مبارک ہو، تم خیر و برکت کے ساتھ آئی ہو، تمھارا نصیب اچھا ہو۔ پھر میری والدہ نے مجھے ان کے حوالے کر دیا۔
انہوں نے نے میرا بناؤ سنگھار کیا۔ پھر دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مَیں خوفزدہ ہو گئی۔
انہوں نے مجھے آپ کے سپرد کر دیا اور اس وقت میری عمر نو برس کی تھی۔
(صحیح بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب تزويج النبي صلى الله عليه وسلم عائشة وقدومها المدينة وبنائه بها، رقم 3894)
~ ترجمہ حافظ عبدالستار الحماد، فاضل مدینہ یونیورسٹی (دارالسلام پبلشرز)
مشہور سلفی عالم و شارح مولانا داؤد راز نے صحیح بخاری کی اس روایت کے تحت لکھ رکھا ہے:
"امام احمد کی روایت میں یوں ہے کہ مَیں گھر کے اندر گئی تو دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک چارپائی پہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اپ کے پاس انصار کے کافی مرد اور عورتیں ہیں، ان عورتوں نے مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بٹھلا دیا اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ آپ کی بیوی ہیں، اللہ مبارک کرے۔ پھر وہ سب مکان سے چلی گئیں۔"
(ج5 ص 274، مطبوعہ مرکزی جمیعت اہل حدیث ہند)