نبیﷺ کا حضرت سودہ کو ارادہ طلاق اور رجوع
1) حضرت عائشہ سے مروی ہے: "(حضرت) سودہ بنت زمعہ عمر رسیدہ (ضعیف) ہو گئیں اور انہیں خوف ہوا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں چھوڑ دیں گے تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میری باری عائشہ کے لیے (وقف) رہے گی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی یہ بات قبول فرما لی۔" (سنن ابو داؤد، رقم 2135)
2) حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے: "ام المؤمنین حضرت سودہ کو ڈر ہوا کہ نبی اکرم ﷺ انہیں طلاق دے دیں گے، تو انہوں نے عرض کیا: آپ مجھے طلاق نہ دیں، اور مجھے اپنی بیویوں میں شامل رہنے دیں اور میری باری کا دن عائشہ کو دے دیں، تو آپ نے ایسا ہی کیا۔
اس پر آیت نازل ہوئی کہ ”کوئی حرج نہیں کہ دونوں (میاں بیوی) صلح کر لیں اور صلح بہتر ہے“ (النساء: ۱۲۸)، تو جس بات پر بھی انہوں نے صلح کر لی، وہ جائز ہے۔" (سنن ترمذی،رقم 3040)
3) ایک اور روایت میں ہے: "نبی ﷺنے سودہ کو طلاق دی، جب آپ نماز کے لئے نکلے تو انہوں نے آپ ﷺکو کپڑے سے پکڑ لیا اور کہا کہ مجھے کسی آدمی کی ضرورت نہیں ہے، مَیں چاہتی ہوں کہ آپ کی بیوی بن کے اٹھوں۔ آپ ﷺ نے ان سے رجوع کر لیا اور ان کی باری عائشہ کے لئے مقرر کر دی۔ آپ نے ان کے لئے دو دن تقسیم کئے، ایک دن ان کا اور ایک عائشہ کا۔"
(سنن کبریٰ بیہقی، رقم 13435)
4) حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے: "آپ نے انہیں بڑھاپے یا کسی اور وجہ سے ناپسند کیا تو انہیں طلاق دینے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے کہا: مجھے طلاق مت دیجئے اور میرے لئے جب چاہے باری تقسیم فرما لیجئے۔ پھر آپ دونوں نے صلح کر لی، پھر یہ سنت جاری ہو گئی اور یہ آیت نازل ہوئی:
"جب کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا خطرہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کر لیں صلح بہر حال بہتر ہے. (النساء: 128)"
(سنن کبریٰ بیہقی، رقم 13436)