نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر
اتنا تو مخالفین کو بھی تسلیم ہے کہ صحیح ترین روایات اور ہر دور کے جمہور آئمہ محدثین و علماء کے نزدیک سیدہ عائشہ کی عمر نکاح کے وقت چھ سال اور رخصتی کے وقت نو سال تھی۔ اب اس کے مقابلے میں صرف ادھر ادھر ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کے مصداق دلائل ہیں، جن کا علم کی دنیا میں کوئی مقام نہیں۔ اگر یہ روایات علم و عقل کے خلاف تھیں تو تاریخ اور حدیث کے تمام بڑے بڑے امام علم و عقل سے پیدل مانے جائیں گے اور اس سے بہتر ہے کہ مخالفین کو ہی ایسا سمجھ لیا جائے۔
مخالفین کو آج تک یہی سمجھ نہیں آئی کہ اعتراض کس پر کرنا ہے؟ کبھی یہ امام بخاری و مسلم پر برسنے لگتے ہیں تو کبھی ان روایات کے راوی ہشام وغیرہ پر۔ بھائی اگر تو راوی کا قصور ہے تو پھر بیچارے محدثین کا کیا قصور وہ تو روایت کر رہے ہیں اور اگر قصور محدثین کا ہے تو بیچارے ہشام وغیرہ کا کیا قصور؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں اطراف میں کوئی ایک راوی نہیں جس پر الزام ڈال کر بری ہوا جا سکے اور نہ کوئی ایک محدث ہے جسے قصور وار بنایا جا سکے۔ مزے کی بات یہ کہ جو چیز آپ حضرات کو گستاخی نظر آتی ہے وہ تمام متقدمین کو کیوں گستاخی نظر نہ آئی؟ اگر یہ تمام متقدمین آئمہ محدثین محبت رسول سے عاری تھے تو آج صدیوں بعد آپ کی محبت کو کیسے مان لیا جائے؟
اب ذرا ایک "مفتی" صاحب کے دیے گئے دلائل کا تجزیہ کرتے ہیں، جن کی بنا پر وہ حقائق کا انکار کرنے پر تُلے ہیں:
پہلی دلیل اور اس کا جواب: قرآن کی جو آیات پیش کی ہیں، ان میں کہیں یہ نہیں کہ شادی کی عمر یہ ہونی چاہئے اور یہ بات خود مفتی صاحب کو تسلیم ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں: "قرآن کریم میں کہیں براہِ راست تو یہ بیان نہیں ہوا کہ نکاح کی عمر کیا ہوتی ہے"
بھائی اگر براہ راست بیان نہیں ہوا تو پھر آپ کا استدلال تو ظنی و استشہادی نکلا پھر اسے صریح روایات کے خلاف کس طرح مانا جا سکتا ہے؟ نیز جو آیات پیش کی گئی ہیں، ان میں صرف عرف کی بات کی گئی ہے کہ عام طور پر جو شادی کی عمر سمجھی جاتی ہے، ان میں سے کسی آیت میں ہرگز یہ نہیں کہ اگر اس سے چھوٹی عمر میں شادی ہو جائے تو وہ مانی نہیں جائے گی یا ہو گی ہی نہیں بلکہ الٹا اس کے خلاف قرآن سے ثابت ہے۔
چنانچہ قرآن میں لکھا ہے:
"اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمہیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے اور یہی حکم اُن کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔" (سورۃ الطلاق: 4)
مشہور تابعی قتادہ نے "جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو" کی تشریح میں کہا: "وہ باکرہ دوشیزائیں جو ابھی حیض کی عمر کو نہ پہنچیں۔" 
(تفسیر دُرِ منثور مترجم، ج6 ص614، ضیاء القرآن پبلشرز لاہور)
امام المفسرین ابن کثیر نے اس آیت کی شرح میں صاف لکھا: "اسی طرح وہ نابالغ لڑکیاں جو اس عمر کو نہیں پہنچیں کہ انہیں کپڑے (حیض) آئیں، ان کی عدت بھی تین ماہ رکھی۔" (تفسیر ابن کثیر مترجم، ج5 ص358، مکتبہ اسلامیہ لاہور)
مشہور اور قدیم ترین مفسر امام ابن جریر الطبری نے جنہیں حیض نہ آیا ہو، سے مراد چھوٹی بچیاں ہی لیا ہے۔ دیکھئے تفسیر طبری (92/28، تفسیر سورۃ الطلاق آیت 4)
مفتی محمد شفیع (سابق مفتی اعظم پاکستان) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا: "اور اس طرح جن عورتوں کو (اب تک بوجہ کم عمری کے) حیض نہیں آیا (ان کی عدت بھی تین مہینے ہے)۔" (معارف القرآن جلد ہشتم ص474)
عبارت میں بریکٹ والے الفاظ خود مفتی صاحب کے ہیں۔
اس تفصیل سے تو بالکل واضح ہے کہ قرآن میں تو نکاح ہی نہیں بلکہ رخصتی و ہمبستری کے لئے بھی بچی کی بلوغت ہرگز کوئی شرط نہیں کیونکہ یہ بات طے ہے کہ عدت صرف اسی پر ہو سکتی ہے جس کا نکاح ہونے کے بعد ہمبستری بھی کی جا چکی ہو۔ دیکھئے سورۃ الاحزاب (آیت: 49) کہ جس کی رُو سے جس کے ساتھ ہمبستری نہ ہوئی ہو اس پر تو سرے سے کوئی عدت ہی نہیں۔
دوسری دلیل: قریشِ مکہ اور منافقینِ مدینہ دونوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اندھے ہورہے تھے ، وہ اس واقعے کے خلاف آسمان سر پر اٹھالیتے ۔
جواب: بھائی !پہلے یہ بتاؤ کہ کفار و منافقین خود جس عمل کو تسلیم کرتے ہوں اس پر شور کیوں مچاتے؟ دوسرا کیا کفار کا کسی چیز کو ماننا خود دلیل ہوتا ہے؟ کفار تو اپنی بچیاں بھی زندہ درگور کرتے تھے یعنی اگر مسلمان بچیاں زندہ درگور کرتے تو بھی وہ شور نہ مچاتے کیونکہ یہ عمل وہاں پایا ہی جاتا تھا۔ مخالفین پہلے ثابت کریں کہ چھوٹی عمر کا نکاح کفار و مشرکین کے نزدیک حرام و ناجائز تھا، پھر یہ استدلال کریں۔ اس کے مقابلے میں ثابت ہے کہ عرب میں یہ عام بات تھی اور اس دور میں اور نکاح بھی ایسے ہوتے رہے ہیں اور بعد میں صحابہ و تابعین کے ہاں یہ عمل ملتا ہے:
چنانچہ حضرت زبیر نے اپنی بیٹی کی شادی اسی وقت کروا دی تھی جب وہ پیدا ہوئی تھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 17627)
ہشام کے اپنے بھائی یعنی حضرت عروہ کے بیٹے کی شادی حضرت معصب کی نا بالغ بیٹی سے ہوئی تھی۔ 
(مصنف ابن ابی شیبہ، رقم 17628)
یہ جن لوگوں کو کافروں اور منافقوں کے شور نہ ڈالنے کی فکر ہے ان سے بھی تو یہ سوال ہے کہ آپ کی نظر میں تو یہ روایات سراسر جھوٹی ہیں تو جب ہمارے یہ محدثین اور راوی یہ سب بہتان باندھ رہے تھے کتابوں میں بار بار لکھ رہے تھے، بیان کر رہے تھے تو اگر مسلمانوں کے ہاں یہ سب جرم ہوتا تو وہ شور نہ مچاتے؟ کافروں اور منافقوں کے شور نہ مچانے سے تو آپ استدلال لے رہے تو یہ نظر نہیں آ رہا کہ حضرت عائشہ کی چھ سالہ عمر میں نکاح اور نو سالہ عمر میں رخصتی والی روایات کو مسلمانوں نے قبول کیا ہے، بار بار بیان کیا ہے، اگر پھر یہ جرم تھا تو ہر دور کے مسلمانوں نے شور کیوں نہ مچایا؟
تیسری دلیل: ہشام بن عروہ پر اعتراض کہ یہ روایات اس کے علاوہ کوئی بیان نہیں کرتا اور وہ بھی عمر کے آخری حصہ میں جب ان کی یاداشت متاثر ہو چکی تھی۔
الجواب: یہ بات تو اکثر ثابت ہو چکی ہے کہ ہمارے ان دوستوں کا علم سے کوئی لینا دینا ہی نہیں بلکہ انہیں تو بس اپنے من مانے مئوقف کا پروپیگینڈہ کرنا ہے، چاہے اس کے لئے دیگر تمام حقائق کا انکار کرنا پڑے اور چاہے تو جھوٹ بولنا پڑے۔ اپنے خلاف آنے والے کثیر اور مستند دلائل کا بھی بغیر دلیل انکار کرنا ہے اور جو اپنے حق میں آ جائے تو ضعیف و مردود روایات سے استدلال کرتے ہوئے بھی شرمانا نہیں۔
عرض یہ ہے کہ 6 یا 7 سال کی عمر میں نکاح اور 9 سال کی عمر میں رخصتی والی روایات تواتر کے ساتھ خود حضرت عائشہ سے ثابت ہیں۔ یہ روایات حضرت عائشہ سے بخاری و مسلم میں ان کے بھانجے عروہ بن زبیر کے علاوہ اسود بن یزید (صحیح مسلم: رقم 3482)، یحییٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطب (مسند ابی یعلیٰ: رقم 4673)، ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف (سنن نسائی: رقم3381) اور عبداللہ بن صفوان (مستدرک حاکم: رقم 6730) جیسے جید تابعین سے بھی مروی ہیں۔ چار معتبر گواہوں کے بعد تو قرآنی اصول کے مطابق تو حدود کا نفاذ واجب ہو جاتا ہے تو عروہ بن زبیر کے علاوہ چار تابعین کی گواہیوں کے باوجود یہاں حضرت عائشہ کی ان روایات کا انکار محض ڈھٹائی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں درج ذیل تابعین سے خود بھی اسی مفہوم کے اقوال بھی ثابت ہیں:
1۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف (مسند احمد: 211/6، رقم 25769)
2۔ یحیٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطب (مسند ابی یعلیٰ: رقم 4673)
3۔ ابن ابی ملیکہ (المعجم الکبیر للطبرانی: 26/23، رقم 62)
4۔ عروہ بن زبیر (صحیح بخاری: رقم 3896)
5۔ زہری (طبقات ابن سعد: 61/8)
اسی طرح تبع تابعین میں سے بھی یہ روایات صرف ہشام بن عروہ سے ہی نہیں بلکہ دیگر سے بھی ثابت ہیں۔ چنانچہ
1۔ حضرت عائشہ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف کی روایت کو ہشام بن عروہ نے نہیں بلکہ محمد بن ابراہیم نے بیان کر رکھا ہے۔
 (سنن نسائی: رقم 3381) 
2۔ حضرت عائشہ سے اسود کی روایت کو بھی ہشام بن عروہ نے نہیں بلکہ ابراہیم نے بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم: رقم 3482)
3۔ اسی طرح حضرت عائشہ سے عروہ بن زبیر کی روایت ہشام بن عروہ کے علاوہ زہری سے بھی مروی ہے۔ (صحیح مسلم: رقم 3481)
مشہور مئورخ اور محدث امام ابن کثیر نے تو اس مسئلہ پر اجماع نقل کر رکھا ہے۔ دیکھئے البدایہ و النہایہ (129/3)
گویا حضرت عائشہ سے 6 سال کی عمر میں نکاح اور 9 سال کی عمر میں رخصتی کی جو بات تواتر کے ساتھ مسلمان مانتے آئے ہیں، بیچارے اکیلے ہشام پر اس کا مدعا نہیں ڈالا جا سکتا اور نہ یہ کہنا درست مانا جا سکتا ہے کہ سب کے سب راویوں کو اتنی شدید غلطی لگی کہ 16 کو چھ بنا دیا اور 19 کو نو۔ ایسا کہنا صرف خود کو اور دوسروں کو دھوکہ دینا ہی کہا جائے گا۔
(شعیب محمد)